امریکہ نے کابل میں منگل کو ہونے والے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے شراکت دار افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے عائشہ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق متعدد ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ منگل کو ایک خود کش بمبار نے افغانستان کے وزیرِ دفاع جنرل بسم اللہ خان محمدی کے گھر کو ہدف بنایا۔ جس وقت دھماکہ ہوا وزیرِ دفاع گھر پر موجود نہیں تھے اور دھماکے بعد ان کے خاندان کو بحفاظت نکال لیا گیا۔
امریکی محکمۂ خارجہ میں بریفنگ کے دوران جب ترجمان نیڈ پرائس سے سوال کیا گیا کہ اطلاعات کے مطابق اس حملے کا ہدف افغانستان کے قائم مقام وزیرِ دفاع تھے؟ اس پر ترجمان نے کہا کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ باضابطہ طور پر کسی کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھیرا سکیں۔
ان کا کہنا تھا ''ہم نے بھی کابل دھماکے سے متعلق رپورٹس کو دیکھا ہے۔ کسی کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھیرانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن بلاشبہ اس حملے میں وہ تمام نشانیاں موجود ہیں جو طالبان کے حملوں کے ایک سلسلے میں نظر آتی ہیں اور جو ہم حالیہ ہفتوں میں دیکھ چکے ہیں۔"
ترجمان نے کہا کہ ہم واضح طور پر اس بم حملے کی مذمت کرتے ہیں اور ہم اپنے شراکت داروں، اپنے افغان شراکت داروں کے ساتھ بدستور کھڑے ہیں۔
قبل ازیں منگل کو افغانستان کا دارالحکومت کابل ایک زور دار دھماکے سے لرز اٹھا تھا۔ جس کے بعد انتہائی سیکیورٹی والے گرین زون میں گولیوں کی آوازیں بھی سنائی دی تھیں جہاں حکومت کے متعدد عہدیدار اور پارلیمنٹ کے اراکین بھی رہائش پذیر ہیں۔
کابل میں مقیم صحافی بلال سروری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ''اس وقت سات بج کر 54 منٹ ہوئے ہیں اور ایک بڑا دھماکہ ہوا ہے۔ دھماکے سے میرا گھر بھی لرز گیا ہے۔ اور دھماکے کے بعد فائرنگ بھی ہوئی ہے۔''
بلال سروری کی ٹوئٹ پر صحافی میگڈا گیڈ نے جواب میں لکھا ''جی۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ ایسا محسوس ہوا جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔''
اس دھماکے کے فوری بعد جنرل محمدی نے اپنے ٹوئٹر سے لوگوں کو یوں تسلی دی کہ ''فکر نہ کیجیے۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔''
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ایسا حملہ تھا جس میں گاڑی میں دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا اور اس کے بعد مسلح افراد نے وزیرِ دفاع کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان میر ویس ستانکزئی نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ حملہ وزیر اکبر خان کے پوش علاقے کے قریب شیرپور میں ہوا۔ البتہ کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ حملے کی آواز کئی کلو میٹر دور تک سنائی دی۔ متعدد مقامی شہریوں نے سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کی ہیں جن میں گہرے دھوئیں کے بادل دیکھے جا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ہرات سمیت افغانستان کے متعدد شہر محاصرے میں رہے جب کہ صوبۂ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی بھی جاری رہی۔
ایک طرف لڑائی دوسری طرف مذاکرات
منگل کو محکمۂ خارجہ کی بریفنگ کے دوران جب ترجمان سے سوال کیا گیا کہ ہم تین برس سے دوحہ مذاکرات کا حصہ ہیں۔ بین الاقوامی برادری بھی اس کی حمایت کر رہی ہے لیکن واضح ہے کہ طالبان ان مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں۔ گزشتہ روز ہی کابل میں سفارت خانے نے بتایا ہے کہ عام شہریوں کا قتل عام ایک جنگی جرم ہو سکتا ہے۔ پھر یہ دوحہ مذاکرات کیوں کر جاری ہیں جب طالبان خانہ جنگی میں ہیں۔ اور وہ ایک مقصد اور منصوبہ بندی کے ساتھ عام شہریوں کو قتل کر رہے ہیں اور عہدیداروں کو بھی ہدف بنا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم دوحہ میں اس لیے ہیں کہ ہم یقین رکھتے ہیں، بین الاقوامی برادری یقین رکھتی ہے، افغانستان کی حکومت یقین رکھتی ہے اور طالبان بھی کہتے ہیں کہ وہ سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں۔
نیڈ پرائس نے دوحہ مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ ایک مرتبہ پھر طالبان کے اقدامات ان کے کلمات سے زیادہ واضح ہو رہے ہیں۔ وہ دوحہ میں مذاکرات کا حصہ ہیں اور ہم ان کے اقدامات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ترجمان کے مطابق طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ مذاکرات کے ذریعے تنازع کے حل کی اہمیت دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دوحہ مذاکرات کا حصہ ہیں۔
SEE ALSO: طالبان نے طاقت کے زور پر قبضہ کیا تو اُن کی حکومت عالمی سطح پر تنہا ہو گی: خلیل زادنیڈ پرائس نے واضح کیا کہ اگر وہ اس کے علاوہ کسی حل کی کوشش کرتے ہیں اور جو بات وہ کرتے ہیں، اس کے برعکس جاتے ہیں تو انہیں بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کرنا ہو گا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان نے اپنی روش جاری رکھی تو انہیں افغان عوام اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے مدد حاصل نہیں ہو گی۔ اس صورت میں سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہو گی کہ اس کے نتیجے میں خانہ جنگی ہو گی۔ افغان عوام کو وہ تحفظ اور سیکیورٹی حاصل نہیں ہو گی جس کے وہ حق دار ہیں۔
اس موقع پر سوال کیا گیا کہ کیا آپ یہ کہنے کو تیار نہیں ہیں کہ امریکہ طالبان کی فتح کو فوجی طور پر ناکام کر سکتا ہے؟
اس پر محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ صدر جو بائیڈن بہت واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ افغانستان کے اندر ایک مقصد کے ساتھ گیا تھا اور وہ نائن الیون کے ذمہ دار نیٹ ورک کو شکست دینا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ افغانستان کی سر زمین کو آئندہ امریکہ کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔ اور ہم یہ مقصد حاصل کر چکے ہیں۔
ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ناکامی نہیں ہے؟
اس پر نیڈ پرائس نے کہا کہ یہ ہرگز ناکامی نہیں اور ہم دوحہ مذاکرات میں سفارت کاری کو ناکام نہیں کرنا چاہتے۔