ہندو عقیدے کے مطابق، اگر کسی سمندر یا دریا کے کنارے کوئی مندر ہو تو اس کی مذہبی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ کراچی کو ایسے ہی دو بڑے مندر رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ایک ہے کلفٹن کے ساحل پر بنایا گیا ’شری رتنیشور مہادیو مندر‘ اور دوسرا قریبی جزیرے ’منوڑا‘ میں واقع ’شری ورون دیو مندر‘۔
یہ پاکستان میں ’شری ورون دیو‘ کے نام پر قائم ہونے والا واحد مندر ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی عمر ایک ہزار سال ہے۔
یہ سمندروں کے دیوتا ’ورون‘ کے نام سے منسوب ہے اور ہندؤ عقائد کے مطابق یہ کھلے سمندروں میں جانے والے مچھیروں کی حفاظت کرتا ہے۔
طویل العمری، موسمی تبدیلیوں اور سمندری ہواؤں کی تھپیڑوں کے سبب یہ مندر نہایت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور جلد ہی یہ اپنی تاریخی اہمیت و حیثیت کھو بیٹھتا کہ امریکی سفیر کے فنڈ برائے ثقافتی تحفظ (یو ایس ایمبیسڈر فنڈ فور کلچرل پری زرویشن) کے ذریعے ناصرف اسے پھر سے اپنی اصل شکل و صورت میں بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا، بلکہ فوری طور سے اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا۔
امریکی قونصل جنرل، گریس شیلٹن نے جمعرات کی صبح اس مندر کا دورہ بھی کیا اور تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیا-
گریس شیلٹن نےسندھ ایکسپلوریشن اینڈ ایڈونچر سوسائٹی کے امریکی حکومت کی مالی مدد سے چلنے والے پراجیکٹ کے ذریعے اس تاریخی مندر کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو سراہا۔
شری ورون دیو مندر کے تحفظ کا پروجیکٹ سندھ میں دوسرا اور پاکستان میں 19واں پروجیکٹ ہے جس کے لیے امریکی سفیر کے فنڈ برائے ثقافتی تحفظ (اے ایف سی پی) سے مالی مدد دی جا رہی ہے۔
اے ایف سی پی کی مالی معاونت کے ذریعے ’سندھ ایکسپلوریشن اینڈ ایڈونچر سوسائٹی‘ اس تاریخی مندر کے تحفظ کے لیے نمایاں کام کر رہی ہے۔
قونصل جنرل گریس شیلٹن کا دورے کے موقع پر کہنا تھا کہ ’’یہ پروجیکٹ بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت اور پاکستان کے ثقافتی اور مذہبی تنوع کی تاریخ کو اجاگر کرتا ہے، مجھے خوشی ہے کہ منوڑا جزیرے پر رہنے والی تمام برادریوں نے اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے بھرپور دلچسپی ظاہر کی۔‘‘
یہ پروجیکٹ بھی پاکستان کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے امریکی حکومت کے عزم کی کئی مثالوں میں سے ایک ہے اور پاکستان کی کثیرالثقافتی اورکثیرالمذاہب تاریخ کے لیے امریکی احترام کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکی حکومت کے مالی تعاون کے ذریعے مقامی آبادی کو اس پروجیکٹ میں شامل کیا گیا، ہنرمندوں کو تربیت فراہم کی اور مختلف سرگرمیوں اور تقریبات کے ذریعے اس تاریخی مندر اور ثقافتی تحفظ کی اہمیت کے متعلق آگاہی فراہم کی۔
اس پروجیکٹ سے قبل شری ورن دیو مندر کی حالت سمندری ہواؤں اور غیرقانونی تعمیرات کی وجہ سے انتہائی مخدوش ہوچکی تھی۔ تاہم، پروجیکٹ کے باعث کئی دہائیوں بعد اب پنڈتوں اور ہندو یاتریوں نے مندر میں مذہبی رسومات کی ادائیگی دوبارہ شروع کردی ہے۔
مندر جانے کے لئے کیماڑی پہنچنا لازمی ہے۔ کیماڑی سے منوڑا تک لانچوں کے ذریعے سفر کیا جاتا ہے پھر سوزوکیاں لوگوں کو آگے لے کر جاتی ہیں۔ سمندری حدود میں ہونے کے سبب یہ سارا علاقہ پاکستان نیوی کی نگرانی میں آتا ہے اور جزیرے پر داخلے کے لئے قومی شناختی کارڈ اور کچھ سخت اصولوں کو تسلیم کئے بغیر آگے نہیں جایا جاسکتا۔
جمعرات کو کوریج کی غرض سے منوڑا جانے والے ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے تک کو کیمرہ لیجانے کی اجازت نہیں دی گئی، حتیٰ کہ کیماڑی پر ’گورنر آف بومبے‘ کے ہاتھوں 104 سال پہلے افتتاح پانے والے لانچز کے اسٹیشن سے ہی موبائل فون کیمرا استعمال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں۔ نگرانی کے لئے انتہائی جدید سرویلنس کیمرے جگہ جگہ نصب ہیں۔ لانچز میں بھی تصویر نہ کھینچنے کی ہدایت لکھی ہوئی ہیں۔
اس صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عام ہندو یاتری وہاں کس طرح جا اور آسکتا ہے؟ موجودہ حالات میں سخت سیکورٹی اقدامات درست ہیں۔ لیکن ایسی صورت میں کوئی نا کوئی پالیسی بنانے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ہندو برادری تحفظ کے احساس کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات ادا یا عبادات باآسانی کر سکے۔
پاکستان میں مندروں پر گہرا تحقیقی تجربہ رکھنے والے اور نیشنل میوزیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر اعجاز کے مطابق مندر کی موجودہ تزئین و آرائش 1917 سے 1918 کے درمیان ہوتی تھی۔ یہ پاکستان ہندو کونسل کی تحویل میں ہے۔
مندر کے نگران جیوراج کے مطابق ورون دیو مندر کو 1992 میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں نقصان پہنچائے جانے کے سبب سیل کردیا گیا تھا، جبکہ ایک تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ یہاں آخری بار پوجا 1950 کے عشرے میں ہوئی تھی۔
مندر کے قریب ہی دو اور چھوٹے مندر جھولے لال اور شیو مندر بھی قائم ہیں، جبکہ قریب ہی دو گرو دوارے اور ایک چرچ بھی واقع ہے۔