امریکہ کو ابھی بھی عالمی وبا کرونا کے خلاف جنگ میں کئی چیلنجز درپیش ہیں لیکن گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال امریکی عوام کہیں زیادہ اُمید افزا ماحول میں جشنِ آزادی منا رہے ہیں۔
ایک سال قبل اسپتالوں میں مریضوں کا رش، مختلف ریاستوں میں پابندیاں، ہزاروں اموات اور ویکسین کے حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال میں گھرے امریکیوں کے لیے رواں سال یومِ آزادی قدرے بہتر وقت کی اُمید لے کر آیا ہے۔
امریکہ میں کروڑوں افراد کو ویکسین لگا دی گئی ہے جب کہ وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کے باعث لوگ بتدریج معمول کی زندگی کی جانب واپس لوٹ رہے ہیں۔
ماہرین کی نظر میں پر امید ماحول کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں جن میں امریکی عوام کو ویکسین کی دستیابی ایک اہم ترین وجہ ہے جب کہ طبی عملے کو اس وبا سے نمٹنے کے لیے اب تجربہ بھی ہو چکا ہے۔
اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے وینڈربلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں متعدی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر ولیم شیفر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ میں کرونا وائرس کے کیسز میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن اب وائرس کی 'ڈیلٹا' قسم ویکسین نہ لگوانے والوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسپتالوں میں داخل ہونے والے نئے متاثرہ لوگوں میں 90 فی صد وہ افراد ہیں جنہوں نے ابھی ویکسین نہیں لگوائی یا انہوں نے ویکسین کی خوراکیں مکمل نہیں کیں۔
ڈاکٹر شیفر کہتے ہیں کہ اگرچہ ویکسین بہت سے لوگوں کو بچا رہی ہے لیکن کافی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی، لہٰذا وہ وائرس کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بدلتی ہوئی صورتِ حال میں گزشتہ برس کے یوم آزادی اور اس برس کے یوم آزادی کی دو کہانیاں مختلف دکھائی دیتی ہیں۔
گزشتہ برس چار جولائی کو یومِ آزادی کی تقریبات کو کرونا وبا کے باعث محدود کر دیا گیا تھا۔ کئی شہروں میں آتش بازی کی تقریبات منسوخ کر دی گئی تھیں اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب امریکہ میں ہر روز اوسطً 500 ہلاکتیں رپورٹ ہو رہی تھیں۔
امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ صورتِ حال کو قابو میں قرار دے رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وبا ایک ریاست سے دوسری ریاست میں تیزی سے پھیل رہی تھی۔
کچھ ہی ہفتوں بعد وبا اپنے عروج پر پہنچ گئی اور امریکہ میں روزانہ ہزاروں اموات ہونے لگیں جب کہ یومیہ لاکھوں کیسز کے باعث اسپتال مریضوں سے بھرنے لگے۔
ایک برس بعد صورتِ حال میں بہتری تو آئی ہے، لیکن اس کے باوجود امریکہ وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ امریکہ میں چھ لاکھ سے زائد افراد اس وبا کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
لیکن اب صورتِ حال گزشتہ برس کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ امریکہ میں اس وقت کرونا کیسز کی تعداد وبا کے ابتدائی دنوں کی تعداد سے بھی کم ہے اور امریکہ کا طبی عملہ جو اُس وقت وبا سے نمٹنے کے طریقے کی تلاش کر رہا تھا اب اس مرض سے نمٹنے کے لیے اُس وقت کے مقابلے میں بہت تجربہ رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں یونیورسٹی آف ورجینیا میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر ٹائیسن بیل کہتے ہیں کہ پچھلے سال اور آج میں سب سے بڑا فرق ویکسین ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ اب ہم جانتے ہیں کہ کرونا کے مریضوں کا علاج کیسے کرنا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کی فوڈ ایند ڈرگ ایڈمنسٹریشن ایجنسی (ایف ڈی اے) نے فائزر، موڈرنا، جانسن اینڈ جانسن جیسی کمپنیوں کی بنائی گئی ویکسینز کی منظوری دے رکھی ہے۔
پندرہ کروڑ امریکیوں کی ویکسی نیشن مکمل
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ویکسینز کو کرونا کے خلاف جنگ میں مرکزی حیثیت دے رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت کے پہلے سو دنوں میں ایک کروڑ لوگوں کو ویکسین دینے کا وعدہ کیا تھا۔
امریکہ میں صحتِ عامہ کے نگراں ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) نے اس ہدف سے دو گنا زیادہ کامیابی حاصل کی۔ ادارے کے مطابق اب تک امریکہ میں 15 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین کی 32 کروڑ سے زیادہ خوراکیں لگائی جا چکی ہیں۔ ان میں 57 فی صد بالغ افراد شامل ہیں جنہیں دونوں خوراکیں دی جا چکی ہیں۔
حالیہ مہینوں میں صدر بائیڈن نے اس سال چار جولائی کو ایک سنگ میل قرار دیا۔ اگرچہ وہ امریکہ میں 70 فی صد عوام کو ویکسین لگانے کے ہدف سے دور رہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ملک ایک "خوشیوں بھرے موسم گرما" کی طرف گامزن ہے۔
خود صدر بائیڈن نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک طرف تو ویکسین لگائے جانے والی جگہوں پر اموات کی شرح اور اسپتالوں میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے تو دوسری طرف اس اہم کامیابی کے باوجود یہ مرض بدستور ایک بڑے خطرے کی صورت میں موجود ہے۔
حالیہ مہینوں میں کرونا کی مختلف اقسام سامنے آنے کی وجہ سے وبا شدت اختیار کر گئی تھی۔ خاص طور پر کرونا وائرس کی ڈیلٹا قسم نہ صرف تیزی سے پھیلتی ہے بلکہ اس مرض کی زیادہ خطرناک شکل بھی ہے۔
پروفیسر بیل کہتے ہیں کہ موجودہ ویکسینز ڈیلٹا ویرینٹ کےخلاف مؤثر ہیں لیکن وائرس کی مزید شکلوں کا بننا خطرناک ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اب تک 77 فی صد ویکسین کی خوراکیں دنیا کے صرف دس ملکوں میں لگائی گئی ہیں جب کہ ترقی پذیر اور کم آمدنی والے ممالک کے پاس ویکسین لگانے کے لیے زیادہ وسائل نہیں ہیں۔
اس تناظر میں پروفیسر شیفر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں لوگوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ عالمی وبا سے چھٹکارا اس وقت تک حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک دنیا کے تمام لوگوں کو محفوظ نہ بنایا جائے اور ایسا کرنے میں ہم سب کا فائدہ ہے۔