امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے چار جولائی تک 70 فی صد امریکیوں کو کووڈ ویکسین کی کم از کم ایک خوراک کی فراہمی کا ہدف مقرر کیا ہے۔ صدر بائیڈن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں کہ ویکسین کی افادیت سے انکار کرنے والوں کو ویکسین لگوانے پر رضامند کیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق، امریکہ میں ویکسین کی وافر دستیابی یقینی بنانے کے باوجود ملکی سطح پر ویکسین کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے اور بہت سی ریاستوں نے اپنے لیے مختص ویکسین کے آرڈرز نہیں دیے۔
منگل کے روز صدر بائیڈن نے ایسی امریکی ریاستوں پر زور دیا کہ وہ ویکسین کی دستیابی کو سہل بنائیں اور بنا پیشگی رجسٹریشن کے آنے والوں کو بھی ویکیسن مہیا کریں۔
صدر نے ادویات کی فروخت سے وابستہ فارمیسیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بغیر رجسٹریشن کے آنے والوں کو بھی ویکسین لگائیں۔ ان اقدامات کا مقصد ویکسین لگانے کے کام میں آسانی پیدا کرنا ہے، تاکہ یہ کام بہتر انداز سے انجام دیا جا سکے۔
ان کی انتظامیہ پہلی بار یہ بھی کوشش کر رہی ہے کہ جن ریاستوں میں ویکسین کی طلب کم ہے، وہاں سے ویکسین کی خوراکوں کو ان ریاستوں کی جانب منتقل کیا جائے جہاں طلب زیادہ ہے ۔
وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ ''آپ کو ویکسین لگوانی چاہیے، چاہے اس بات کا خدشہ کم ہی ہو کہ آپ شدید بیمار ہوسکتے ہیں۔ خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت ہے؟ ویکسین لگانے سے آپ یا آپ کے کسی پیارے کی زندگی بچ سکتی ہے۔''
بائیڈن نے جس ہدف کا تعین کیا ہے، اس کے مطابق امریکہ کی 118 ملین بالغ آبادی کو کم از کم ویکسین کی پہلی خوراک دی جائے گی ، جب کہ 160 ملین افراد کو مکمل طور پر ویکسین دی جا سکے گی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ لوگوں کی ویکسین لگوانے میں دلچسپی کم ہو رہی ہے۔
پہلے ہی 56 فی صد امریکی بالغ آبادی کو کووڈ کی کم از کم ایک ویکسین لگ چکی ہے جب کہ تقریباً 105 ملین افراد ویکسین کی دونوں خوراکیں لے چکے ہیں۔
اس وقت امریکہ میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 965،000 افراد کو ویکسین لگانے کا کام جاری ہے۔ تین ہفتے قبل کے مقابلے میں ویکسین لگوانے کی شرح نصف کے قریب رہ گئی ہے۔ لیکن، بائیڈن کے مقرر کردہ ہدف سے پھر بھی دو گنا زیادہ اور تیزی سے لگائی جارہی ہیں۔
اپنے نئے ہدف سے متعلق بائیڈن نے کہا کہ ''میں چاہتا ہوں کہ ہدف کو 100 فی صد کامیاب ہونا چاہیے۔ لیکن، حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چار جولائی تک یہ ہدف حاصل کر لیا جائے گا''۔
انھوں نے کہا کہ ایسے میں جب ویکسین لگانے کے کام کو تیز کیا جارہا ہے، ان کی انتظامیہ تین باتوں کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز رکھے گی: ایسے بالغ افراد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو ویکسین لگوانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، وہ جنھوں نے ویکسین کے حصول کی کوشش تو کی ہے لیکن انہیں ویکسین لگانے کی جلدی نہیں ہے؛ اور 12 سے 15 برس کے بچے جن کی باری اُس وقت آئے گی جب حکام اس عمر کے افراد کو ویکسین فراہم کرنے کی منظوری دیں گے۔
صدر بائیڈن نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ویکسین لگانے کا کام سست روی کا شکار ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ ویکسین لگانے کا کام اس وقت مزید مشکل ہو جاتا ہے جب شک کرنے والوں کو شاٹس لگوانے کے لیے قائل کرنا پڑے۔
انھوں نے کہا کہ شک کا اظہار کرنے والوں کے لیے سب سے موثر دلیل یہ ہے کہ ان سے یہ سوال پوچھا جائے کہ آیا وہ اپنے پیاروں کو محفوظ ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ '' موت یا زندگی، انتخاب آپ نے کرنا ہے''۔
متوقع طور پر فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن 12 سے 15 سال کے بچوں کے لیے فائزر کی ویکسین کی منظوری دینے والی ہے۔ وائٹ ہاؤس اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ بچوں تک ویکسین کی فراہمی بڑھا دی جائے۔
اس ہفتے امریکی ریاست آئیووا نے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ہفتے کے لیے فراہم کردہ ویکسین کی تقریباً ایک تہائی خوراکیں لوٹا دیں، کیونکہ وہاں ویکسین کی طلب ماند پڑ چکی ہے۔ دریں اثنا، لوئیزیانا نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران وفاقی حکومت سے ملنے والا ویکسین کا کوٹہ واپس کر دیا ہے۔
سینٹر فور ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر دیگر ریاستوں کے مقابلے میں لوئیزیانا میں کرونا وائرس کے خلاف ویکسین لگوانے کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ امریکی ریاستوں کی تقریباً 27 فی صد آبادی ویکسین کی دونوں خوراکیں حاصل کر چکی ہے، جب کہ 32 فی صد کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دی جا چکی ہے.