عدالت کا ٹرمپ کے خلاف ہش منی کیس میں سزا کا فیصلہ، کوئی تعزیر عائد نہیں کی گئی

نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اٹارنی ٹوڈ بلانچ کے ساتھ فوجداری مقدمے میں سزا سنائے جانے کی نیو یارک کی ایک عدالت کی کارروائی میں آن لائن شریک ہوئے۔

  • فیصلہ ان کے جرم کے ارتکاب کو برقرار رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی انہیں آزادانہ طور پر جیل کی سزا یا جرمانے کے خطرے کے بغیر وائٹ ہاؤس میں اپنا دور حکومت شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
  • ایک پورن اسٹار کے ساتھ ماضی کے تعلق پر اسے پیسوں کے عوظ خاموش رکھنے کے اس غیر معمولی مقدمے میں سابق اور آنے والے صدر پر 34 مجرمانہ الزامات لگائے گئے تھے۔
  • نو منتخب صدر نے اس موقع پر اپنے مختصر بیان میں عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف یہ فوجداری مقدمہ اور الزامات کا مرتکب ٹھہرایا جانا ایک بہت برا تجربہ رہا ہے۔
  • ٹرمپ نے اصرار کیا کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔
  • یہ مقدمہ میری ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا تاکہ میں الیکشن ہار جاؤں، اور ظاہر ہے کہ ایسا نہ ہو سکا۔"

امریکہ کی ایک عدالت نے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو "ہش منی" کیس میں سزا سناتے ہوئے ان پر کوئی تعزیر عائد نہیں کی ہے اور انہیں غیر مشروط طور پر ڈسچارج کردیا ہے۔

خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق اس طرح جج کا فیصلہ ان کے جرم کے ارتکاب کو برقرار رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی انہیں آزادانہ طور پر جیل کی سزا یا جرمانے کے خطرے کے بغیر وائٹ ہاوس میں اپنا دور حکومت شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

واضح رہے کہ ایک پورن اسٹار کےساتھ ماضی کے تعلق پر اسے پیسوں کے عوظ خاموش رکھنے کے اس غیر معمولی مقدمے میں سابق اور آنے والے صدر پر 34 مجرمانہ الزامات لگائے گئے تھے۔

تاہم، اس مقدمے کی قانوی پیچیدگیوں اور کیس کی تفصیلات سے امریکی ووٹرز کی نظر میں ٹرمپ کے بارے میں تاثر پر کوئی اثر نہیں پڑا اور عوام نے ٹرمپ کو چار سال کے وقفے کے بعد پچھلے سال نومبر کے الیکشن میں دوسرے دورِ صدارت کے لیے منتخب کر لیا۔

SEE ALSO: یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ عوام میری سزا کی تائید کریں گے: ٹرمپ


اے پی کے مطابق اس مقدمے میں چار سال کی سزا ہو سکتی تھی جس کا اختیار نیویارک ریاست میں مین ہیٹن کے جج وان ایم مرچن کے پاس تھا مگراس کی بجائے جج نے ایک ایسی سزا دینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت آئینی مسائل سے بچتے ہو ئے اس مقدمے کو ختم کر دیا گیا

تاہم نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہوجانے کے بعد یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ آیا کوئی عدالت نومنتخب صدر کو سزا سنا سکتی ہے یا نہیں۔

جمعے کو فیصلہ سناتے ہوئے جج وان مرچن نے کہا کہ اس سے قبل ان کی عدالت میں اتنا منفرد اور مختلف حالات والا مقدمہ پیش نہیں ہوا۔ تاہم ان کے بقول ایک جج کو مقدمے کے حقائق کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے حالات کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔

جج نے کہا کہ غیر معمولی حالات کے باوجود یہ مقدمہ ان کی عدالت میں چلنے والے دوسرے مقدمات ہی کی طرح تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے صدر کو حاصل قانونی تحفظ اس عہدے کا استحقاق ہے، اس پر براجمان شخصیت کا نہیں۔

جج مرچن نے کہا کہ، جیسے کسی دوسرے مدعا علیہ کے معاملے میں ہوتا ہے، سزا دینے سے پہلے متعدد عوامل پر غور کیا جاتا ہے۔ لیکن، انہوں نے اس کیس کے حوالے سے کہا کہ صدر کے طور پر ٹرمپ کو جو قانونی تحفظ حاصل ہوگا وہ ایک ایسا عنصر ہے "جو باقی سب پرحاوی ہے۔"

SEE ALSO:  نیو یارک کی اعلیٰ ترین اپیل کورٹ کا 'ہش منی' کیس میں ٹرمپ کی سزا روکنےسے انکار

جج نے اس موقع پر نوٹ کیا کہ کسی صدر کو حاصل قانونی تحفظات کی غیر معمولی وسعت کے باوجود ایک اختیار ایسا ہے جو ان تحفظات کے زمرے میں نہیں آتا اور وہ یہ ہے کہ ان سے جیوری کا فیصلہ مٹ نہیں سکتا۔

اس فیصلے کے نتیجے میں ٹرمپ اب پہلے امریکی ہیں جو کسی جرم کے مرتکب ہونے کے بعد صدارت کا عہدہ سنبھالیں گے۔

ٹرمپ جمعے کو عدالتی کارروائی میں ریاست فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ مار۔ آ۔ لاگو سے آن لائن شریک ہوئے۔

نو منتخب صدر نے اس موقع پر اپنے مختصر بیان میں عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف یہ فوجداری مقدمہ اور الزامات کا مرتکب ٹھہرایا جانا ایک بہت برا تجربہ رہا ہے۔ ٹرمپ نے اصرار کیا کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔

اپنا دوسرا دور صدارت شروع کرنے سے دس روز قبل بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے اس مقدمے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

SEE ALSO: عدالت نے خصوصی وکیل کو ٹرمپ کے خلاف الزامات کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرنے سے روک دیا

ہش منی کا مقدمہ ان پر دائر کیے گئے چار مقدموں میں سے واحد مقدمہ ہے جس پر عدالت نے کارروائی کی اور ممکنہ طور پر ان کے خلاف زیر سماعت آنے والا یہ واحد مقدمہ ہی رہے گا۔

ٹرمپ نے کہا،"یہ ایک سیاسی وچ ہنٹ ( نشانہ بنانے کی کارروائی) ہے۔ یہ میری ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا تاکہ میں الیکشن ہار جاؤں، اور ظاہر ہے کہ ایسا نہ ہو سکا۔"

ٹرمپ نے کہا کہ حکومت نے اس مقدمے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور یہ "نیویارک کے لیے شرمندگی" کا باعث ہے۔

اس مقدمے میں عدالت کا فیصلہ سنائے جانے کی تاریخیں جولائی سے اب تک تبدیل ہوتی رہی ہیں تاہم جج مرچن نے 10جنوری کی تاریخ کو حتمی قرار دیا تھا۔

ٹرمپ کے وکلاء نے اس فیصلے کو روکنے کے لیے آخری وقت تک کوشش کی تاہم جمعرات کو امریکی سپریم کورٹ نے بھی چار کے مقابلے میں پانچ ججوں کی رائے کے تحت فیصلے کو مؤخر کرنے سے انکار کردیا۔

SEE ALSO: ہش منی کیس: ٹرمپ کو مجرم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف درخواست مسترد

استغاثہ کے وکیلوں نے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی لیکن انہوں نے ٹرمپ کے قانونی نظام پر حملوں پر کڑی تنقید کی۔

خیال رہے کہ "ہش منی" کیس میں ٹرمپ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے پورن اسٹار سٹورمی ڈینیئلز کو اپنے ساتھ تعلق پر خاموش رہنے کے لیے 130,000 ڈالر کی ادائیگی کو چھپانے کی خاطر اپنے کاروبار کے ریکارڈ میں جعلسازی سے کام لیا تھا۔

اے پی کے مطابق ٹرمپ نے ڈینئیلز کو اس رقم کی ادائیگی سال 2016 کی انتخابی مہم کے آخر میں کی تھی تاکہ وہ عوام کو اس جنسی تعلق کے بارے میں نہ بتائے جو اس کے مطابق دونوں کے درمیان ایک دہائی قبل ہوا تھا۔

ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے درمیان جنسی طور پر کچھ نہیں ہوا تھا اور یہ کہ ان کے سیاسی مخالفین نے انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہوئے جعلی قانونی چارہ جوئی کی ہے۔

(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)