سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو متوقع طور پر منگل کو گرفتار کر کے باضابطہ فرد جرم عائد کرنے کے لیے جج کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ایسا پہلی بار ہوگا کہ کوئی سابق امریکی صدر مجرمانہ الزامات کا سامنا کرے گا۔
نیو یارک کی ایک گرینڈ جیوری نے ٹرمپ کے خلاف 2016 کی صدارتی مہم کے دوران ایک پورن اسٹار اسٹارمی ڈینیئلز کو معاوضہ ادا کرنے کے الزامات سے متعلق جمعرات کو سابق صدر کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ٹرمپ کے خلاف یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب وہ آئندہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات کے ذریعے ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں واپسی کے خواہاں ہیں۔
ان کےخلاف عائد کی گئی فرد جرم ابھی تک سیل بند ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ پر کون سے جرائم یا کتنے مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
نشریاتی ادارے 'سی این این' کے مطابق سابق صدر پر 30 سے زائد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
نیو یارک کے مین ہیٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی ایلون بریگ کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے ٹرمپ کے اٹارنی سے رابطہ کیا ہے تاکہ ٹرمپ کی گرفتاری اور ان کی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر میں پیشی کے سلسلے میں انتظامات کیے جا سکیں۔
خیال رہے کہ ٹرمپ فلوریڈا میں رہائش پذیر ہیں اور انہیں عدالت میں پیشی کے لیے فلوریڈ ا سے خفیہ سروس کے ساتھ نیویارک جانا ہو گا۔
حراست میں لیے جانے کے بعد اور جج کے سامنے پیش کرنے سے قبل ٹرمپ کی انگلیوں کے نشانات لیے جائیں گے اور ان کی تصویر اتاری جائے گی۔ انہیں اپنی ذاتی شناخت کرنے پر رہا کیا جائے گا۔
دریں اثنا کئی خبر رساں اداروں نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ پیر کو نیویارک جانے اور منگل کو عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ٹرمپ ٹاور میں رات گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جمعہ کے روز سیکریٹ سروس اور نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے کورٹ ہاؤس کا دورہ کیا جہاں ٹرمپ کو پیش کیا جائے گا۔ ا ہلکاروں نے سیکیورٹی کے منصوبوں پر تبادلۂ خیال کیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ٹرمپ کے وکیل سوسن نیکلس نے کہا ہے کہ سابق صدر جج کے سامنے قصوروار نہ ہونے کی استدعا کریں گے۔
ٹرمپ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ وہ اس بات سے خائف نہیں ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔
سابق صدر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پراپنے کیس کی نگرانی کرنے والے جج جسٹس جوآن مرچن پر تنقید کی۔
ٹرمپ نے جمعے کو الزام لگایا تھا کہ جج ان سے نفرت کرتے ہیں اور انہوں نے ٹیکس فراڈ کے مقدمے میں ٹرمپ آرگنائزیشن کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا تھا۔
اس سے قبل جمعرات کو ایک بیان میں ٹرمپ جنہوں نے اس مقدمے میں کسی بھی غلط کام کے مرتکب ہونے سے انکار کیا ہے، اپنے پر عائد ہونے ولی فرد جرم کو ڈیموکریٹس کی جانب سے ان کی "میک امریکہ گریٹ اگین" کی تحریک کو تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
سابق صدر نے لکھا کہ "یہ سیاسی ظلم و ستم اور تاریخ کی بلند ترین سطح پر انتخابی مداخلت ہے۔"
انہوں نے ڈیمو کریٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کو قابو کرنے کے جنون میں ڈیموکریٹس نے جھوٹ بولا، دھوکہ دیا اور چوری کی۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ اب ڈیموکریٹس نے "ناقابل تصور" کام کیا ہے اور ایک مکمل طور پر بے گناہ شخص کو انتخابی مداخلت کے ایک فعل میں مجرم قرار دیا ہے۔
ٹرمپ نے دعوی کیا کہ ان کے خلاف فرد جرم ان کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کے بجائے الٹا صدر جو بائیڈن کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر خبردار کیا تھا کہ اگر ان پر فرد جرم عائد کی گئی تو اس کے نتیجے میں "ممکنہ موت اور تباہی" ہو سکتی ہے۔
کچھ ناقدین نے ٹرمپ کے اس بیان کو تشدد پر اکسانے کے طور پر دیکھا تھا۔
اگرچہ ٹرمپ کے خلاف فرد جرم ایک متوقع پیش رفت تھی، اس خبر نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک طوفان برپا کردیا۔
ری پبلکن کانگریس مین اور ٹرمپ کے کٹر وفادار جم جارڈن نے اپنی ٹوئٹ میں ٹرمپ کے خلاف کارروائی کو 'اشتعال انگیز' قرار دیا تھا۔
ایوان نمائندگان کے اسپیکر کیون میکارتھی نے مین ہیٹن کے اٹارنی جنرل بریگ پر ٹرمپ کے خلاف نظام انصاف کو ہتھیار بنانے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایوان استغاثہ اور "اس کے اختیارات کے بے مثال استعمال کا احتساب کرے گا۔"
ایسے ری پبلکنز بھی جو خاص طور پر ٹرمپ کے قریب نہیں ہیں سابق صدر کے خلاف فیصلے کے پیچھے سیاسی محرکات کو کارفرما دیکھتے ہیں۔
دوسری جانب ڈیموکریٹس کی طرف سے اس فیصلے پر ردعمل متوقع طور پر سازگاررہا۔
ایک بیان میں، ڈیموکریٹک ہاؤس کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی نے لکھا کہ گرینڈ جیوری نے "حقائق اور قانون کے مطابق کام کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، اور ہر کسی کو بے گناہی ثابت کرنے کے لیے مقدمے کی سماعت کا حق ہے۔"
صدر جو بائیڈن نے جمعے کو اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ "میں ٹرمپ کی فرد جرم کے بارے میں بات نہیں کروں گا۔"
(اس خبر میں شامل کچھ معلومات رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)