مشرقی یروشلم میں متنازعہ نیا ہاؤسنگ پروجیکٹ شروع کرنے کی اطلاعات پر، اوباما انتظامیہ نے بدھ کے روز اسرائیل کو متنبہ کیا کہ ’ایسا کرنے سے اسرائیل اپنے قریب ترین اتحادیوں کو بھی اپنے سے دور کر دے گا‘، اور یہ بات ’اسرائیل کی فلسطینیوں کے ساتھ امن کی خواہش کے بارے میں سوالات کو جنم دے گی‘۔
بدھ کے روز وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی صدر براک اوباما سے ملاقات ہوئی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے بتایا کہ ملاقات میں صدر اوباما نے گھر تعمیر کرنے کے منصوبے کے بارے میں وزیر اعظم نیتن یاہو کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔
اخباری بریفنگ کے دوران، ترجمان نے کہا کہ منصوبے پر عمل کرنا، ’بین الاقوامی برادری کی طرف سے مذمت کا ہی باعث بنے گا‘۔
بقول ترجمان،’اِس کے نتیجے میں، فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پُرامن تصفیے کے بار ےمیں اسرائیل کے ادارے پر سوالات بھی اٹھنا شروع ہوجائیں گے‘۔
اطلاعات کے مطابق، یہ بیت اللحم کے قریب کا علاقہ ہے، جہاں 2500نئے گھر بنانے کا متنازع منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔
ماضی میں بھی اسرائیل کی طرف سے مشرقی یروشلم میں گھروں کی تعمیر کے معاملات پر، امریکہ بارہا تنقید کرتا رہا ہے، جسے امریکہ فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کے حصول کے لیے نقصاندہ قرار دیتا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے مشرقی یروشلم کے مضافات میں واقع سلوان میں رہائشی عمارتوں پر قبضے کی مذمت کی۔
ارنیسٹ نے اس معاملے کو ’اشتعال انگیزی‘ قرار دیا، اور کہا کہ ایسا کرنے سے تناؤ کا ماحول پیدا ہوگا، ’ایسے وقت، جب پہلے ہی کشیدگی بڑھی ہوئی ہے‘۔
ادھر، محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان نے بدھ کی اخباری بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مشرقی یروشلم میں گھروں کی تعمیر سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوگا، ’جسے خوش آئند نہیں کہا جا سکتا‘۔
خاتون ترجمان، جین ساکی نے کہا کہ ایک قریب ترین اتحادی کی حیثیت سے امریکہ ہمیشہ مقبوضہ علاقوں میں بستیوں اور گھروں کی تعمیرکے معاملوں پر آواز اٹھاتا رہا ہے۔
بقول ترجمان، ’یہ ایک حساس معاملہ ہے، جس سے ماحول زہر آلود ہوسکتا ہے، اور اِس کے نتیجے میں دو ملکی حل کے حوالے سے اسرائیل کے ارادے پر سوالات اٹھیں گے۔‘