امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ، ملکی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی سے درپیش مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے یہ بات معمول کی پریس بریفنگ میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہی۔
اس سوال کے جواب میں کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے موقعے پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانےکے لیے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا کہ اس کے زیرِ کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گردحملوں کے لیے استعمال نہ ہو،
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا، " ہم پورے خطے میں دہشت گردی سے درپیش مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔ "
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام نے دہشت گرد حملوں کے باعث برسوں مشکلات برداشت کی ہیں۔
SEE ALSO: بلوچ علیحدگی پسند خواتین کو خود کش حملوں کے لیے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ترجمان ملر نے کہا،"ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گرد گروپوں کے خاتمے اور اپنی نیشنل ایکشن ٹاسک فورس کے ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں ساجد میر کو گرفتار کرنا اور اسے سزا سنانا بھی شامل ہے۔"
محکمہ خارجہ کے ترجمان ملر نے مزید کہا، " ہم مسلسل اس بات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور متعدد انتہائی مضبوط دہشت گرد تنظیموں سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے لیے اقدامات جاری رکھے۔"
ترجمان ملر نے کہا کہ جیسا کہ مارچ 2023 کے سی ٹی مزاکرات میں طے پایا،" ہم پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ یہ مسئلہ باقاعدگی سے اٹھاتے رہیں گے اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر فائر بندی برقرار رکھنے کے لیے امریکہ، بھارت اور پاکستان کی تعریف کرتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے میں، بھارت میں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا، " ہم بھارتی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت میں انسانی حقوق پر تشویش کا معاملہ باقاعدگی سے اٹھاتے ہیں اور خود صدر بائیڈن نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں اس پر بات کی۔"
SEE ALSO: پاکستان اپنی سرزمین انتہا پسند حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے: امریکہ بھارت کا مشترکہ بیانواضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی وزیر اعظم مودی کا امریکہ کا سٹیٹ وزٹ مکمل ہونے اور صدر بائیڈن سے ان کی ملاقات کے بعد، وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم مودی نے سرحد پار دہشت گردی اور دہشت گرد پراکسیز کے استعمال کی مذمت کی تھی اور پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانےکےلیے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا کہ اس کے زیرِ کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گردحملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔
مشترکہ بیان میں صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے القاعدہ، داعش، لشکرِ طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت اقوامِ متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کے مطالبے کا اعادہ بھی کیا تھا۔
SEE ALSO: دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون جیو پولیٹکل ضرورتوں پر قربان کر دیا گیا، پاکستاناس کے جواب میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ،"ہم اسے غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن سمجھتے ہیں۔ یہ حوالہ سفارتی آداب کے برعکس اور سیاسی نوعیت کا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ امریکہ کے ساتھ، انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں پاکستان کے گہرے تعاون کے باوجود اسے مشترکہ بیان میں شامل کیا گیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا،" پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایسی قربانیاں دی ہیں جو کسی نے بھی نہیں دیں۔ اس جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ، ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے ایک مثال قائم کردی ہے۔ اور اس جنگ میں پاکستان کے لوگ اصل ہیروز ہیں۔"