چین کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے سیاست دان بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپک مقابلوں کے سفارتی بائیکاٹ کے بیانات دینا بند کریں تاکہ دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ چین کے بقول، اگر امریکہ نے ایسا کیا تو بیجنگ کی جانب سے، اگر ضروری ہوا تو، جوابی اقدامات کیے جائیں گے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس ہفتے اعلان کر سکتی ہے کہ امریکی حکومتی عہدیدار بیجنگ میں سال2022 کے سرمائی مقابلوں میں شرکت نہیں کریں گے۔ سی این این اور این بی سی ٹیلی وژن نے بھی ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔
اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عہدیدار اس ایونٹ میں شریک نہیں ہوں گے، جب کہ امریکہ کی جانب سے اتھلیٹس کی ٹیم کو اولمپک مقابلوں میں شرکت کی اجازت ہو گی۔
SEE ALSO: بیجنگ میں سرمائی اولمپکس میں کرونا کے باعث تماشائیوں کا داخلہ ممنوع ہونے کا امکاناس طرح ایک مرتبہ پھر 1980 والی صورت حال پیدا نہیں ہو گی جب صدر جمی کارٹر نے افغانستان پر سوویت یونین کے 1979 کے حملے کی وجہ سے امریکی ایتھلیٹس کو ماسکو میں ہونے والے گرمائی کھیلوں میں جانے سے روک دیا تھا۔
چین میں سرمائی مقابلوں میں امریکہ کے ممکنہ سفارتی بائیکاٹ کی خبر سب سے پہلے سی این این نے دی تھی۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاو لی جیان نے کہا ہے کہ بائیکاٹ کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جانا چاہیے اور اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ چین اور امریکہ کے درمیان اہم شعبوں میں تعاون اور ڈائیلاگ متاثر نہ ہوں۔ تاہم، انہوں نے باور کرایا کہ اگر امریکہ سوچ سمجھ کر ایسا کرتا ہے تو چین بھی ضرور جوابی اقدامات کرے گا۔ انہوں نے یہ بات ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ چین کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ، جیسا کہ چین کے اندر مسلمان اقلیتوں کی نسل کشی ہو ریی ہے، کو سامنے رکھتے ہوئے اولمپک مقابلوں کے سفارتی بائیکاٹ کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ پر مقابلوں میں عدم شرکت کے لیے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور اراکین کانگریس کی جانب سے دباؤ ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ان اطلاعات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
صورت حال سے واقف چار ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے اندر اس بارے میں اتفاق بڑھ رہا ہے کہ بیجنگ اولمپکس کا بائیکاٹ کیا جائے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے اتوار کے روز اس بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا تھا۔
[اس مضمون میں شامل مواد خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے پی سے لیا گیا]