قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری آلے ہاندرو مے یورکاس نے کہا ہے کہ امریکہ 50 ہزار سے زائد ایسے افغان شہریوں کو اپنے ملک میں بسانے کی امید رکھتا ہے جنہوں نے افغان جنگ کے دوران امریکہ کی مدد کی تھی۔
آلے ہاندرو کے مطابق اب تک ہزاروں افغان جانچ پڑتال کے عمل سے گزر کر امریکہ میں داخل ہو چکے ہیں تاکہ انہیں ملک میں بسانے کا عمل شروع کیا جا سکے۔
جمعے کو ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ مزید کتنے افغان امریکہ میں داخل ہو سکیں گے اور کب تک یہ عمل جاری رہے گا، یہ سوالات ابھی باقی ہیں۔
ان کے بقول یہ آئندہ چند ہفتوں کی بات نہیں ہے۔ بلکہ تب تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہدف پورا نہیں ہو جاتا۔
امریکہ کی ریاست ڈیلاوئیر کے گورنر جیک مارکیل ’آپریشن ایلائیز ویلکم‘ (یعنی آپریشن اتحادیوں کو خوش آمدید) کے معاون مقرر کیے گئے ہیں۔ افغانستان سے شہریوں کو انخلا کے بعد امریکہ لانے کی کارروائی کو وائٹ ہاؤس نے ’آپریشن ایلائیز ویلکم‘ کا نام دیا ہے۔
گورنر جیک مارکیل نیشنل سیکیورٹی کونسل، ڈومیسٹک پالیسی کونسل، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور دیگر وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر اس بات کو ممکن بنائیں گے کہ خطرے میں گھرے ہوئے افغان شہریوں کو سیکیورٹی کی جانچ پڑتال سے گزرنے کے بعد امریکہ میں بسانے کا عمل مؤثر انداز میں تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی (یو این ایچ سی آر) نے ایک جینیوا سے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے لاکھوں افغان بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کی فوری امداد کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں کسی بھی انسانی المیے سے بچا جا سکے۔
SEE ALSO: افغان سرحد سے باڑ ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: شیخ رشیدایجنسی کے مطابق 35 لاکھ سے زائد افغان جنگ اور سلامتی کے خدشات کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں پانچ لاکھ سے زائد افراد رواں برس بے گھر ہوئے۔ بے گھر ہونے والوں میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
یو این ایچ سی آر نے پیش گوئی کی ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد افغان شہری دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دے کر منتقل ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مبصرین کے مطابق پاکستان اور ایران کی سرحدوں کے قریب بڑی تعداد میں مہاجرین کی افغانستان سے ان ممالک میں منتقلی ابھی تک ممکن نہیں ہو پائی ہے۔
اسلام آباد سے بات کرتے ہوئے ادارے کے ترجمان بابر بلوچ نے وائس آف امریکہ کی لیسا شیلین نے کہا کہ ان کا ادارہ اس بات کا کھوج لگا رہا ہے کہ اب تک اتنی کم تعداد میں مہاجرین کی آمد کی کیا وجہ ہے۔
ان کے بقول اس بات کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اصل بحران افغانستان کے اندر پیدا ہو رہا ہے۔
بابر بلوچ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد تجارت کے لیے تو کھلی ہے لیکن بہت کم تعداد میں افغان شہری اسے پار کر پا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ افغانستان کے بحران کو نہ بھلایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ عالمی طور پر اپیل کر رہا ہے کہ دنیا افغان عوام کے مسائل سے توجہ نہ ہٹائے۔