رسائی کے لنکس

'افغان خواتین کام کر سکتی ہیں لیکن انہیں وزارت ملنے کا امکان نہیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان کی حکومت میں خواتین کو شریعت کے مطابق کام کی اجازت ہو گی لیکن اب طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت میں خواتین کو کوئی وزارت نہیں ملے گی۔

خواتین سے متعلق طالبان کے مؤقف پر بین الاقوامی برادری اب بھی تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ دوسری جانب افغان خواتین جو جمہوری حکومتوں میں کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیتی رہی ہیں وہ بھی تذبذب کا شکار ہیں۔

کئی دیگر خواتین کی طرح افغان فوج میں خدمات انجام دینے والی ہزاروں خواتین اہلکار و افسران فکر مند ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد ان کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا طالبان انہیں اسی طرح کام کی اجازت دیں گے جس طرح وہ سابق حکومتوں میں کرتی رہی ہیں؟

مزاری امانی افغان فوج میں شامل ان چند خواتین جنرلز میں سے ایک ہیں جو 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک چھوڑ گئی تھیں۔

مزاری امانی ان دنوں فرانس میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ان ساتھیوں کے لیے فکر مند ہیں جو اب بھی افغانستان میں ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے ملک نہیں چھوڑ سکی تھیں۔

اُن کے بقول فوج میں خدمات انجام دینے والی کئی خواتین ان سے رابطہ کر کے کہتی ہیں کہ طالبان اُن کی تلاش میں ہیں اور وہ راتوں کو ان کے گھروں میں چھاپے مار کر ان کے بارے میں اہلِ خانہ سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔

مزاری امانی نے کہا کہ ان کی ساتھی اہلکار انہیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لیے ہوئے ہیں اور ان سے سوال کرتی ہیں کہ ایسا کب تک چلے گا۔

افغان خواتین فوجی فکر مند
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:21 0:00

مزاری نے کہا کہ انہیں اپنی ساتھیوں کی روزانہ اس طرح کی درجنوں فون کالز موصول ہوتی ہیں جو ان سے کہتی ہیں کہ وہ افغان خواتین اہلکاروں کی مدد کریں اور ان کی آواز دنیا کے سامنے اٹھائیں کیوں کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔

طالبان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خواتین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں تاہم طالبان کا اب یہ مؤقف ہے کہ وہ ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل جاری نہیں رکھیں گے اور خواتین کو شریعت کے مطابق کام کرنے کی اجازت دیں گے۔

'کوئی خاتون وزیر نہیں بن سکتی'

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کو اطالوی اخبار 'لا ریپبلیکا' کو انٹرویو کے دوران ایک مرتبہ پھر اپنی اس بات کو دہرایا کہ خواتین کے جامعات میں تعلیم حاصل کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی اور وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

البتہ طالبان کے ترجمان نے واضح کیا کہ افغانستان کی نئی حکومت میں خواتین کی بطور وزیر تقرری کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن وہ سرکاری محکموں میں شریعت کے مطابق کام کر سکیں گی۔

طالبان کی جانب سے خواتین کو کام کرنے کی اجازت دینے کی مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود اب بھی کئی خواتین خوف کا شکار ہیں۔

افغان فوج میں کرنل کے عہدے پر خدمات انجام دینے والی شریفی کہتی ہیں طالبان کا نکتۂ نظر یہ ہے کہ وہ خواتین کو کسی بھی سطح پر کام کرتے ہوئے تسلیم نہیں کریں گے اور خاص طور پر اگر آپ فوجی وردی میں ہوں تو وہ اس کی بالکل بھی اجازت نہیں دیں گے۔

افغان فوج کی ایک اور افسر جینا فروتان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اور امریکہ کو طالبان سے یہ ضمانت لینا ہو گی کہ خواتین کو ان کی مرضی کے مطابق کام کی اجازت دی جائے۔

البتہ طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ خواتین اسپتالوں میں بطور نرسز کام کر سکتی ہیں۔ ان کے بقول خواتین کو پولیس اور مختلف وزارتوں میں بطور معاون کام کرنے کی اجازت ہو گی تاہم کوئی خاتون وزیر نہیں بن سکے گی۔

XS
SM
MD
LG