امکانی مالیاتی خودکشی!

فائل

اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ معیشت خود اپنے ہی ہاتھوں خودکشی کرلے گی اور نہ یہ آشیانہ اتنا ناپائیدار ہے۔
’فسکل کلف‘ Fiscal Cliff کا قریب ترین مفہوم تو یہی سمجھ میں آتا ہےکہ اگر دونوں بڑی پارٹیاں ایک مہینے کے اندر اندر مالیاتی معاملات پر مفاہمت نہیں کرپائیں تو امریکی معیشت ایک اونچی بلندی سے گر کر تباہ ہوجائیگی۔ مفاہمت کی سیاست کا پاکستان میں بہت گزر اور ذکر ہے، اور یہ درست ہے کہ بظاہر پاکستانی صدر کی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے حکومت تو اپنی ٹرم پوری کررہی ہے۔ امریکہ میں صدر اور ارکان کانگریس کی ٹرم کا تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ کوئی فوجی مداخلت توہو نہیں سکتی، لیکن اس عدم مفاہمت نے قانون سازی اور بجٹ سازی کوتقریبا ً ناممکن بنا کر رکھ دیا ہے۔

ایک طرف صدر اوباما اور انکی ڈیموکریٹک پارٹی ہے، جسکا کہنا ہے کہ ریپبلیکن پارٹی سے ، جسکی ایوان نمائندگان میں اکثریت ہے، ڈیل، یعنی، مفاہمت صرف اُس صورت میں ممکن ہے کہ جب ملک کے دو فیصد امیر ترین طبقے کے ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ ریپبلیکن پارٹی اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ اسکا کہنا ہے کہ بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت اپنے خرچے کم کرے، ان میں ایسے پروگرامز بھی شامل ہیں جن سے غریب غربا، بوڑھے اور سابق فوجی فائدہ اٹھاتے ہیں۔


اگر پہلی جنوری تک کھربوں ڈالر کے بجٹ خسارے کو کم کرنے کا کوئی درمیانی راستہ نہ نکالا گیا، تو ایک قانون کے تحت خود بخود نہ صرف تمام امریکیوں کے ٹیکسوں میں اضافہ ہو جائیگا، بلکہ دفاعی اور فلاحی اخراجات میں بھی زبردست کٹوتی واقع ہوگی۔ گویا دونوں ہی پارٹیوں کا نقصان!

لیکن، اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ معیشت خود اپنے ہی ہاتھوں خودکشی کرلے گی اور نہ یہ آشیانہ اتنا ناپائیدار ہے۔ یہ امریکی میڈیا اور کسی حد تک لیڈروں کا وطیرہ ہے کے کسی بھی بڑے واقعے، جرائم، اور پیچیدہ یا متنازعہ شخصیات کو ایسے نام دے دیے جاتے ہیں کہ وہ فوراً زبان زد عام ہوجائیں اور عوام کو کافی حد تک انکی نزاکت کا احساس ہو جائے۔ جیسے ہمارے کچھ باعمر قارئین کو یاد ہو کہ سال 2000 آنے سے پہلے ہی دنیا میں ایک قیامت سی بپا تھی، اور ہم سب انتظار میں تھے کہ سال 2000 کی رات آتے ہی دنیا کے تمام کمپیوٹرز کام کرنا بند کردیں گے اور پھر پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے اور تخت اچھال دیے جائینگے!

Y2K آیا بھی اور اطمینان سے گزر بھی گیا، بیشتر تخت نشین سلامت ہیں، اور جو نہیں رہے وہ چراغ لیے خود ہی ہوا کے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔

اگر پہلی جنوری آکر گزر گئی اور اکژ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ یہ آکر گزرجائے گی، تو کسی نتیجہ خیز مفاہمت نہ ہونے کے باوجود خیال یہی ہے کہ زیادہ کچھ نہیں بگڑے گا۔ جو وقتی طلاطم ٹیکسوں کے بڑھنے اور اخراجات کے گھٹنے سے ہوگا، اسے قانون ساز جلد ہی الٹے پاؤں لوٹادیں گے۔ اللہ اللہ، خیر صلا۔