اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال شدت پسند گروپوں بشمول حزب الاحرار اور جماعت الاحرار کے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں ضم ہونے کی وجہ سے افغانستان، پاکستان اور خطے کے لیے خطرے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارے کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال جولائی اور اگست میں پانچ شدت پسند گروپوں بشمول حز ب الاحرار اور جماعت الاحرار نے دوبارہ تحریکِ طالبان میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جس کی وجہ سے رپورٹ کے مطابق نہ صرف تحریکِ طالبان پاکستان کی قوت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ خطے میں ہونے والے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے ایک بار پھر اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز اور افغانستان میں تعینات غیر ملکی فورسز ان شدت پسندوں کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش شروع کریں گے جو سرحد پار سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
حال ہی میں جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کالعدم شدت پسند گروپ تحریکِ طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کا بعض دیگر گروپس کے ساتھ ہونے والا اتحاد افغانستان، پاکستان اور خطے کے لیے خطرے میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔
رپورٹ میں ایک ملک کا نام لیے بغیر اس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد 2500 سے 6000 کے درمیان ہے جب کہ ایک دوسرے ملک کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جولائی اور اکتوبر کے درمیان ٹی ٹی پی نے سرحد پار سے 100 سے زائد حملے کیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پاکستان کے اس دیرینہ مؤقف کی تائید کرتی ہے کہ افغانستان میں موجودہ ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار، حزب الاحرار جیسے شدت پسند گروپ پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔
تاہم افغانستان کی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کسی بھی شدت پسند گروپ کو وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی گئی۔
تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروپ پاکستان اور افغانستان کی سلامتی کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں۔ ان کے بقول دونوں ملکوں کو یہ کوشش کرنا ہو گی جہاں تک ممکن ہو سکے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔
ان کے بقول تحریکِ طالبان کا دیگر شدت پسندوں کے ساتھ الحاق کے بعد یہ گروپ پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
تاہم تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اگر کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں افغانستان کے حالات نہ صرف بہتر ہو سکتے ہیں بلکہ اس کے مثبت اثرات پاکستان پر بھی ہوں گے۔
اُن کے بقول اس کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان جیسے شدت پسند گروپوں کے لیے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
یادر ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان کی کارروائیوں کا ہدف پاکستان رہا ہے اور ماضی میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری یہ شدت پسند گروپ قبول کرچکا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 36 فی صد کمی، مذہبی انتہا پسندی بدستور بڑا خطرہ: رپورٹلیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف کی جانے والے مؤثر کارروائیوں کے بعد پاکستان کی طرف سے پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ نصب کرنے کے بعد تحریکِ طالبان جیسے شدت پسند گروپ کی مجموعی قوت کمزور ہو گئی ہے۔
پاکستان کا الزام ہے کہ تحریکِ طالبان میں دیگر شدت پسندوں کو ضم کرنے میں پاکستان مخالف دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ لیکن ٹی ٹی پی کے ترجمان کی طرف سے میڈیا کو جاری ہونے والے بیان میں ان دعووں کی تردید کی گئی ہے۔
یادر ہے کہ امریکہ نے پہلے ہی ٹی ٹی پی اور حزب الااحرار کو امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کی بنیاد پر دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رکھا ہے۔
دوسری جانب امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہے کہ افغانستان میں تشدد کی سطح بہت بلند ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اس صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے اور طالبان کی کارروائیوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ سب سے بہتر راستہ افغان فریقوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے کا حصول ہی ہے۔ اُن کے بقول اس مقصد کے حصول کے لیے تمام فریقوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
یاد رہے کہ دوحہ معاہدہ طے پانے کے بعد طالبان نے غیر ملکی فورسز پر اپنے حملے روک دیے تھے۔ لیکن امریکہ طالبان پر زور دے رہا ہے کہ وہ تشدد میں کمی اور جنگ بندی کریں لیکن طالبان تاحال اس پر آمادہ نہیں ہیں۔