امریکی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے بعض "مثبت اشارے" مل رہے ہیں لیکن ان کے بقول اب بھی شدت پسندوں سے متعلق پاکستان کی پالیسی میں کوئی بڑا فرق نہیں آیا ہے۔
منگل کو امریکی ایوانِ نمائندگان میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جوزف وٹل کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کو پاکستان سے بعض ایسے مثبت اشارے ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان اپنی حدود میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے متعلق امریکی تحفظات دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ گو کہ پاکستان نے اب تک ایسے فیصلہ کن اقدامات تو نہیں کیے جو امریکہ چاہتا ہے کہ وہ کرے، لیکن اس کے باوجود اسے درست سمت میں سفر قرار دیا جاسکتا ہے۔
ایوان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیانِ حلفی میں جنرل وٹل کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے امریکی فوج کو ان کارروائیوں کے بارے میں بتایا ہے جو وہ برسرِ زمین کر رہے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی درست ثابت ہورہی ہے۔
صدر ٹرمپ کی حکومت نے رواں سال کے آغاز پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کی سکیورٹی امداد روک دی تھی جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
تاہم تناؤ کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے جاری ہیں جن سے بظاہر لگتا ہے کہ دونوں جانب سے سرد مہری کی برف پگھلی ہے۔
منگل کو ہونے والی سماعت میں جنرل وٹل نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ وہ مستقل پاکستانی فوج میں اپنے ہم منصب افسران سے رابطے میں رہتے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ فی الوقت پاکستان سے اپنے تعلقات کو قابلِ بھروسا قرار نہیں دے سکتے کیوں کہ ان کے بقول ماضی کے بہت سے تجربات ایسے ہیں جن کے اثرات بدستور موجود ہیں۔
امریکی جنرل نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ افغانستان کی 64 فی صد آبادی افغان حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں میں رہتی ہے جب کہ 12 فی صد ان علاقوں میں ہے جہاں طالبان کا قبضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ باقی آبادی ان علاقوں میں ہے جن پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قبضے کے کشمکش جاری ہے۔