امریکہ نے دنیا بھر کی مطلق العنان حکومتوں پر الزام لگایا ہے کہ ایسی سرگرمیوں کو زِچ کرنے کے لیے جن سے اُن کی قیادت کو کسی طرح کا کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، وہ طاقت کے بل بوتے پر اپنے ہی عوام کے احساسات کو دبانے کے حربے استعمال کرتی ہیں۔
محکمہٴ خارجہ کی جانب سے انسانی حقوق کی چالیسویں سالانہ رپورٹ میں، جسے بدھ کے روز جاری کیا گیا، کہا گیا ہے کہ ’’2015ء میں آمرانہ حکومتوں کی جانب سے متمدن معاشرے کے خلاف کارروائی تیز کرکے، آزادانہ آواز کو خاموش کرنے، سیاسی مکالمے کے انداز کو اپنے حق میں بدلنے اور پُرامن تبدیلی کی تمام راہیں بند کرنے کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’مطلق العنان حکومتیں متمدن معاشرے کا گلہ گھونٹتی ہیں، اس لیے کہ اُنھیں کھلے عام جانچ کی صورت میں خوف لاحق ہوتا ہے اور سمجھتی ہیں کہ مخالفیں ایسا ماحول پیدا کرسکتے ہیں جس پر کنٹرول کرنا اُن کے بس سے باہر ہوگا‘‘۔
امریکی محکمہٴ خارجہ نے متعدد حکومتوں پر تنقید کی، جن میں شمالی کوریا، کیوبا، چین، ایران، سوڈان اور ازبکستان شامل ہیں، جنھیں ’’تاریخی اعتبار سے مطلق العنان حکومتیں‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں شہری آبادی پر کیے گئے ظالمانہ حملوٕں کے حوالے سے، داعش کے دہشت گردوں کی مذمت کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ حیران کُن امر نہیں کہ شام کے شہر رقہ میں پہلی بات جس میں یہ دہشت گرد تنظیم (دولت اسلامیہ) ملوث ہوئی وہ متمدن معاشرے کے سرگرم کارکنوں کو قتل کرنا تھا؛ یا پھر اُنھیں بھگانا تھا، جو انسانی حقوق کے دفاع کر رہے تھے اور وہاں کمیونٹی خدمات بجا لا رہے تھے‘‘۔
ایسے میں جب امریکہ نے کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے اور حالیہ دِنوں صدر براک اوباما نے اس جزیرہ نما ملک کا دورہ کیا، جو امریکہ کے جنوبی ساحل پار واقع ہے، محکمہٴ خارجہ نے کہا ہے ہے کہ کیوبا نے’’اپنی امتیازی، تنگ نظر روایات کو قائم کرکے، لوگوں کو حراست میں لے کر اظہار رائے اور پُرامن اجتماع کی آزادی چھیننے کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے متعدد سیاسی قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرلیا ہے جنھیں جنوری 2015ءمیں رہائی نصیب ہوئی تھی، جنھوں نے سال بھر اپنی سرگرمیاں جاری رکھی تھیں۔‘‘
اس میں کہا گیا ہے کہ چین میں ’’اس سال کے دوران، اداروں اور افراد کے خلاف ظلم اور زیادتی میں خاصا اضافہ دیکھا گیا جو شہری اور سیاسی حقوق کے علمبردار ہیں۔ وکلا کی برادری کے خلاف کارروائی خاص طور پر شدید رہی ہے‘‘۔
امریکی محکمہٴ خارجہ نے کہا ہے کہ روس نے ’’آزادیِ اظہار کو دبانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ حکومت نے نئے ظالمانہ قوانین منظور کیے اور حکومت پر تنقیدی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے موجودہ قانون کو ارادتاً استعمال کرتے ہوئے ہراساں کرنے، اعتماد چھیننے، قانونی چارہ جوئی کرنے، قید میں ڈالنے، حراست میں لینے، ہرجانہ عائد کرنے یا افراد یا تنظیموں کے خلاف اقدام کیا جاتا ہے‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرائیمیا میں، جس جزیرہ نما یوکرینی خطے کو 2014ء میں روس نے فتح کیا، وہاں روس نے یوکرین اور کرائیمیا کے تاتاریوں کے خلاف ’’باضابطہ طور پر ہراساں کرنے اور امتیاز برتنے‘‘ کے حربے استعمال کیے، جن کا مقصد اپنے جارحانہ عزائم کی پردہ پوشی کرنا تھا۔
محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ملائیشیا، تاجکستان اور ترکی نے، جو نیٹو میں امریکہ کے اتحادی ہیں، متمدن معاشرے کی سرگرمیوں کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی، جس کے لیے ’’انسداد دہشت گردی یا قومی سلامتی کے قوانین‘‘ کا غلط استعمال کیا گیا، یا پھر قوانین کی غلط تشریح کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران، مصر، کینیا، کمبوڈیا، یوگنڈا، نکاراگوا، بولیویا، ویتنام، پاکستان اور اکئاڈور کی حکومتوں نے ’’آزادانہ اجتماع کے حق کو محدود کرنے کے لیے کڑے انتظامی طریقہٴ کار اور نوکرشاہی سے متعلق ضوابط کا استعمال کیا‘‘۔