امریکہ میں بارہویں جماعت تک تعلیم مفت ہے لیکن اس کے بعد کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم پرکافی اخراجات آتے ہیں جس کے باعث بہت سےنوجوان یہاں کالج جانے کی بجائے ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اوباما انتظامیہ نے زیاد ہ سے زیادہ نوجوانوں کی اعلی تعلیم تک رسائی ممکن بنانے کے لیئے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے ۔اس سلسلے میں واشنگٹن کی ہاورڈ یونیورسٹی میں وائسز ان ایکشن کے نام سے ایک سیمنار منعقد کیا گیا، جس میں امریکہ بھر سے طالب علم شریک ہوئے۔
اس سیمنار میں طالب علموں نے نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ ان کی آواز امریکی محکمہ تعلیم تک پہنچانے کا بھی انتظام کیا گیاتھا۔
البرٹو ریٹانا امریکی محکمہ تعلیم سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے چیلینجزکو دیکھتے ہوئے آج کی نوجوان نسل سے مکالمہ بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان ہماری کمیونٹی کا بہت اہم حصہ ہیں۔ وہ ان تمام کوششوں کا محور ہیں۔اس کی کامیابی اور ناکامی سے ان کا فائدہ اور نقصان جڑا ہے۔ ہم نے پچھلے پانچ مہینے میں پورے ملک میں طالب علموں سے ملاقات کی ، ان کی آواز سنی اور ان کے مسائل جاننے کی کوشش کی ہے۔
یہ سیمنار صدر اوبامہ کی ان کوششوں کاحصہ ہے جس کے تحت سال 2020 تک ہائی سکول کے زیادہ سے زیادہ طالب علموں کو کالج ڈگری کی طرف مائل کرنا ہے ۔ جس کے لیے پورے ملک سے طالب علموں کو واشنگٹن کی ہاورڈ یونیورسٹی میں مدعو کیا گیا تھا۔
اس سمٹ میں شریک طالب علموں نے مختلف پروگراموں اور مباحثوں کے ذریعے اپنے خیالات اورنظریات نہ صرف دوسرے طالب ساتھیوں کے ساتھ بانٹے بلکہ محکمہ تعلیم کے اعلی عہدے داروں سے بھی براہ راست بات چیت کی۔
رسلین علی محکمہ تعلیم کے سماجی حقوق کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں کم آمدنی والے گھرانے اور کچھ اقلیتیں اعلیٰ تعلیم صرف اس لیے حاصل نہیں کر پاتی کیونکہ انھیں مناسب مدد میسر نہیں ۔ آج کے نوجوان تعلیم سے نہیں گھبراتے بلکہ تعلیمی نظام کی پیچیدگیوں سے خائف ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ یہ فرضی باتیں ہیں کہ بچے پڑھائی کو مشکل سمجھتے ہیں۔آج ہم نے سنا کہ بچے اگر تعلیم مکمل نہیں کر پاتے تو یہ ان مسائل کے باعث ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ تعلیمی نظام میں ان کی آواز بھی شامل ہو اور ان کی بھی سنی جائے۔
سیمنار میں شریک والدین نے کہا کہ عام آدمی تک اعلی تعلیم کی رسائی کو آسان ترین بنانا وقت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا
امریکی محکمہ تعلیم کے عہدے داروں نے امریکی تعلیمی نظام میں بہتری لانے کی ان کوششوں کو پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے لیے بھی اہم قرار دیا اور کہا کہ مقصد محض خواندگی کی شرح میں اضافہ نہیں بلکہ اعلی تعلیم تک زیادہ سے زیادہ افراد کی رسائی ممکن بنانا ہے۔