تقریباً 5,000 خاندانوں کو ایک پروگرام کے تحت الگ کیا گیا جسے "زیرو ٹالرنس" کا نام دیا گیا یعنی کسی قسم کی و رعایت کے بغیر پالیسی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ امریکہ میکسیکو کی سرحد پر پناہ کی تلاش میں تھے۔ اس کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا ۔ لیکن پانچ سال بعد بھی 180 بچے اپنے والدین سے بچھڑے ہوئے ہیں۔ اورجو دوبارہ اکٹھے ہوئے ہیں ان کا مسقبل ڈانوا ڈول ہے۔
امریکن سول لبرٹیز یونین کے لیے کام کرنے والے وکیل لی جیلرنیٹ کا کہنا ہے کہ " سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ کیا ان کے لیے امریکہ میں مستقل طور پر رہنے کا کوئی راستہ ہو گا؟ ہم امید کر رہے ہیں کہ بالآخر، ہم ان لوگوں کو رہنے کے لیے درخواست دینے کا ایک مناسب موقع فراہم کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کرلیں گے۔ بصورت دیگر، وہ صرف خطرے میں واپس بھیجے جائیں گے، یا ان کے والدین کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے تارکین وطن کے لیے "زیرو ٹالرنس" کا اعلان کیا تھا۔ والدین پرمجرمانہ الزام لگا کرجیل بھیج دیا گیا۔ ان کے بچے چھین لیے گئے۔ یہ پالیسی ہزاروں خاندانوں کی علیحدگی کا باعث بنی۔
SEE ALSO: امریکہ: ریاست ٹیکساس میں کنٹینر سے نکالے گئے تارکین وطن میں سے 53 ہلاکہزاروں تارکین وطن کی طرح، لوئیس اور اس کے نوعمر بیٹے نے مئی 2018 میں گوئٹے مالا سے ترک مکانی کی کوشش ، 2,000 کلومیٹر سے زیادہ پیدل سفر کرتے ہوئے امریکی-میکسیکو کی سرحد تک پہنچ گئے۔ وہ زیرو ٹالرنس پالیسی کے دوران پہنچے۔ لوئس کا بیٹا ہزاروں تارکین وطن بچوں میں شامل ہوا - کچھ تو بہت چھوٹے بچے تھے - لوئس کا کہنا ہے کہ بارڈر پٹرول افسر نے میرا بیٹا اپنی تحویل میں لے لیا۔ جب میں اس کے خلاف احتجاج کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے جیل میں رکھا جا رہا ہے۔ اس لیے بچّے کو الگ کیا جارہا ہے۔ اگر میں نے مزید سوال جواب کیے تو میری سزا میں اضافہ ہو جائے گا"۔(لوئس اصل نام نہیں ہے، وی اے او نے نام مخفی رکھنے کا وعدہ کیا ہے)
سرحد پر بچّوں سے الگ ہونے والے تارکین وطن کی طرف سے 20 سے زیادہ مقدمے دائر کیے گئے ہیں۔ اس پالیسی کے خلاف دونوں جماعتوں کی طرف سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا جس نے اس وقت کے صدر ٹرمپ کو اس پریکٹس کو ختم کرنے پر مجبور کیا۔
کچھ بچے رضاعی دیکھ بھال میں رکھے گئے۔کچھ کو دوردراز کے رشتہ داروں کے پاس بھیجا گیا جو انہیں پہلے کبھی نہیں جانتے تھے۔
کیرول این ڈونا ہاو کیلی فورنیا میں ایک غیر منافع بخش ادارے میں بطور اٹارنی کام کرتی ہیں، ان کا کہنا کہ " اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اس طرح کے متاثرین کے زخم کبھی مندمل نہیں ہو سکتے، وقت واپس نہیں آتا۔ جو ذہنی اور جسمانی صدمہ پہنچ گیا وہ تا عمر باقی رہتا ہے۔"
جنوری 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے چند ہفتوں کے اندر، صدر جو بائیڈن نے اپنے خاندانوں سے الگ ہونے والے بچوں کو دوبارہ ملانے کے لیے ایک انٹرایجنسی ٹاسک فورس بنائی۔
SEE ALSO: امریکہ کے جشن آزادی پر پاکستانی تارکینِ وطن کیا محسوس کرتے ہیں؟20 میں سے کچھ مقدمات کو طے کرنے کے لیے بات چیت شروع ہوئی، لیکن بائیڈن انتظامیہ کے حکام نے نومبر 2021 میں بات چیت ترک کر دی۔ کانگریس نے جدا ہونے والے خاندانوں کی مدد کے لیے ابھی تک کوئی بل منظور نہیں کیا۔
اٹارنی ڈونا ہاو کہتی ہیں کہ "ہم اس نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہماری حکومت نے کیا ہے، لہذا میں اس وقت تک بہت زیادہ بہت زیادہ خوش امیدی کا اظہار نہیں کر سکتی جب تک کہ سینکڑوں جو ابھی تک وہاں موجود ہیں واپس نہیں آ جاتے۔"
قدامت پسندوں نے خاندانوں کو ادائیگیوں کی پیشکش کی تجویز کی شدید مخالفت کی ہے۔ گزشتہ نومبر میں، سینیٹ کے کچھ ریپبلکنز نے صدر بائیڈن پر زور دیا کہ وہ کسی بھی مالی معاوضے کو روک دیں۔ انہوں نے اس تجویز کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ اس سے امریکہ میکسیکو سرحد پر مزید غیر قانونی کراسنگ کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔