امریکہ نے مشرقی ایشیائی ممالک میں ایرانی تیل کی فروخت کے الزام میں چین سمیت دیگر ممالک کی کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں نے امریکی پابندی کے باوجود ایران کے سب سے بڑے پیٹرو کیمیکل ادارے کی لاکھوں ڈالر مالیت کی مصنوعات کو مشرقی ایشیائی ممالک میں فروخت کیا۔
پیر کو امریکہ کے محکمۂ خزانہ نے ایک بیان میں مذکورہ کمپنیوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے پرشین گلف پیٹروکیمیکل انڈسٹری کمرشل کارپوریشن کی پیٹرولیم منصوعات ایران سے مشرقی ایشیا میں فروخت کے لیے سہولت کار کے طور پر کام کیا۔
امریکہ نے جن کمپنیوں پر پابندی عائد کی ہے ان میں سے چار کا تعلق ہانگ کانگ، ایک کا متحدہ عرب امارات اور ایک کا سنگاپور سے ہے۔
محکمۂ خزانہ کی ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان تازہ ترین اقدامات کا مقصد ان امریکی پابندیوں کا اطلاق کرانا ہے جنہیں تیل اور پیٹرو کیمیکلز کی فروخت سے ایران کو محصولات حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اس کارروائی کی زد میں آنے والوں کے امریکہ میں اثاثے منجمد ہو جاتے ہیں اور ان پابندیوں کا مقصد امریکیوں کو ایران کے ساتھ لین دین کرنے سے روکنا ہے۔
جنوری 2021 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امریکی صدر جوبائیڈن اس توقع پر ایران کے ساتھ تیل اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی تجارت میں ملوث چینی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں لگانے سے گریز کرتے رہے ہیں کہ ایران کے ساتھ 2015 کا جوہری معاہدہ بحال ہو جائے گا۔
تاہم ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے تاحال کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، جس کے بعد امریکی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے اس کے ساتھ تجارت کرنے والی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر رہی ہے۔
امریکی محکمۂ خزانہ کے انڈر سیکریٹری برائے ٹیرر ازم اینڈ فنانشل انٹیلی جنس برائن نیلسن نے ایک بیان میں 2015 کے جوہری معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ مشترکہ جامع منصوبہ بندی کے مکمل نفاذ اور باہمی واپسی کے حصول کے لیے سفارت کاری کے راستے پر گامزن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘‘جب تک ایران اپنے وعدوں پر مکمل عمل درآمد کرنے کے لیے تیار نہیں ہو جاتا، ہم ایرانی پیٹرولیم اور پیٹرو کیمیکلز کی غیر قانونی فروخت پر پابندیاں نافذ کرتے رہیں گے۔’’