پاکستان: مالی مسائل کے حل کے لیے وزارتِ خزانہ کا بیان کیا محض دلاسہ ہے؟
کراچی —
اتوار کی رات وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے ایک غیر معمولی مشترکہ بیان میں حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کے مالیاتی مسائل "عارضی" نوعیت کے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں۔
رات گئے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر فروری سے گرواٹ شکار ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضوں، امداد، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کی جانب سے قرضے، غیر ملکی بینکوں سے تجارتی قرضے اور یورو بانڈز اور سکوک کے اجراء کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔
لیکن غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد میں کمی کی بڑی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کا اگلے جائزہ فروری سے کا التواء کا شکار رہا۔ جبکہ دوسری جانب غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے باعث ڈالرز کی آوٹ فلو کا سلسلہ جاری رہا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آوٹ فلو زیادہ اور ان فلو کم ہونے کی وجہ سے شرح مبادلہ یعنی ایکسچینگ ریٹ پر دباو بڑھ گیا۔ جبکہ حکام کے مطابق اس کی دوسری وجہ امریکہ میں شرح سود کا بڑھنا، اور پھر پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھنا بھی قرار پایا ہے جس کی اصل وجہ توانائی کے لئے ایندھن کا بل بڑی حد تک بڑھنا ہے۔
تاہم حکام کا کہناہے 13 جولائی کو آئی ایم ایف سے معائدہ طے پاجانے کے بعد تمام پیشگی اقدامات بھی مکمل کرلئے گئے ہیں۔ اور آئندہ دو ہفتوں میں پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر ملنے کی قوی امید ہے۔ جبکہ دوسری جانب حکومت نے بھی ایسے اقدامات کئے ہیں جس سے کرنٹ اکاونٹ یعنی جاری خسارے پر قابو پایا جاسکے۔ ادھر حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لئے وہ آئی ایم ایف کے دئیے گئے پروگرام پر عملدرآمد کے لئے بھی تیار ہے
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کو مالی سال 2023 میں درکار تمام معاشی ضروریات کو پورا کرلیا جائے گا۔
ادھر نئے مالی سال کے پہلے مہینے میں درآمدات کے بل میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ آنے والے چند ماہ میں میں بھی اس کمی کا رحجان برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ معاشی اعشارئیے ٹھیک ہونے کی صورت میں روپے کی قدر میں بھی کسی حد تک استحکام نظر آئے گا۔ حکام نے ان خبروں کو افواہ قرار دیا ہے جس کے تحت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے روپے کی قدر کو کم رکھنے کا کوئی معائدہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایکسچینج ریٹ لچک دار اور مارکیٹ کے تعین پر مبنی ہے۔
"سرمایہ کاروں کا اعتماد اعلانات سے نہیں بلکہ ڈالرز کی آمد سے بحال ہوگا"
لیکن دوسری جانب اُدھر مختلف تجزیہ کاروں اور صنعتکاروں اور تاجروں نے ان اعلانات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان بیانات کو دلاسے قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ اگرچہ پیر کو ایکسچینج مارکیٹ میں گزشتہ کئی ہفتوں کے برعکس پاکستانی روپے کی قدر میں کسی حد تک اضافہ (0.22 فیصد) تو دیکھا گیا ہے لیکن کراچی میں مقیم اقتصادی تجزیہ کار شہریار بٹ نے کہا ہے کہ شرح مبادلہ میں کمی کا سلسلہ جو مئی 2021 سے شروع ہوا تھا، رواں سال جون اور جولائی میں اس میں تیزی آنے کے بعد کے بعد اگست میں بھی بدستور جاری رہنے کا امکان ہے۔ جبکہ اسٹاک مارکیٹ کا حجم بھی گزشتہ چند ماہ سے گراوٹ کا شکار ہے۔
SBP on Twitter
“Interbank closing #ExchangeRate for today https://t.co/zJkUuow7if”
twitter.com
تاہم انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد اعلانات سے نہیں بلکہ اسی صورت میں بحال ہوگا جب آئی ایم ایف تقریباً 1.17 بلین ڈالر پر مبنی ساتویں اور آٹھویں قسط جاری کرے گا۔ اعداد و شمار کے مطابق مئی 2022 میں پاکستانی کرنسی 57 فیصد گراوٹ کا شکار ہوئی جو جنوری 1957 کے بعد سب سے بڑی گراوٹ ہے۔
ایک اور تجزیہ کار علی خضر کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک کا خیال ہے کہ پاکستانی روپیہ 235 سے 240 پر مستحکم ہو جائے گا۔ تاہم ان کے خیال میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال ہی اس کا اصل تعین کرپائے گی۔
ادھر گزشتہ ہفتے ایک خبر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ سے اپیل کی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کی قسط جلد دلوانے کے لیے امریکہ آئی ایم ایف پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے۔ جاپان کے ایک معروف اخبار نکی ایشیاء کی رپورٹ کے مطابق جنرل باجوہ نے امریکی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن سے درخواست کی ہے کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے قرض کی منظوری کے لیے امریکہ پاکستان کی مدد کرے۔"
دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور کاروباری مرکز کراچی کے چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ادریس کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اقدامات کے بجائے صرف طفل تسلیاں دی جارہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں کاروبار کرنے کے لئے حالات سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی نے ملک میں کاروباری ماحول کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔جبکہ شرح سود 15 فیصد ہوجانے سے کاروبار ٹھپ ہوکر رہ چکے ہیں۔ جبکہ فکس ٹیکس کے تحت تاجروں بشمول چھوٹے تاجروں کے، 6 ہزار روپے بجلی کے بلوں میں اضافی وصول کئے جارہے ہیں جو ان حالات میں ظلم کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس ملک کو درپیش اس معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اعلانات کے علاوہ کوئی پالیسی نہیں۔
محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔