امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے اتوار کے روز کہا ہے کہ قطر کے لیے سعودی عرب اور اُس کے تین اتحادیوں کی جانب سے پیش کردہ مطالبات پورے کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ تاہم، اُنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ خلیج فارس کے سفارتی تعطل کے حل کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔
قطر نے ایک روز قبل اِن مطالبات کو ''نامناسب اور ہمارے اقتدار اعلیٰ کے خلاف'' قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
ایک بیان میں، ٹِلرسن نے کہا کہ ''کئی اہم معاملات ہیں جو جاری بات چیت کے لیے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں، جن سے حل کی جانب بڑھا جا سکتا ہے''۔
ٹِلرسن نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کے نزدیک کن معاملات پر قطر سے ساتھ مصر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمجھوتا طے کر سکتے ہیں۔
اس الزام پر کہ قطر علاقے میں دہشت گردی بھڑکا رہا ہے، چار عرب ملکوں نے دو ہفتے قبل قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے۔ اِن ملکوں نے گذشتہ ہفتے اپنے مطالبات مصالحت کی کوشش کرنے والے، کویت کے حوالے کردی تھیں۔
باقی چیزوں کے علاوہ چار ملکوں نے قطر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک بند کردے، جو ایک طویل عرصے سے قطر اور اُس کے ہمسایوں کے خلاف تنازع کا سبب بنا ہوا ہے۔
چاروں ملکوں نے قطر سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اخوان المسلمین، داعش، القاعدہ اور لبنان میں ایران کی پشت پناہی سے چلنے والی حزب اللہ تحریک سے تعلقات ختم کردے۔
مزید یہ کہ چار ملک یہ چاہتے ہیں کہ قطر ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کی سطح کم کر دے، مخالف شخصیات کو حوالے کردے جنہیں اُس نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور امارات میں ترکی کا ایک فوجی اڈا بند کردے۔
قطر نے کہا ہے کہ مطالبات سے اُس بات کی تصدیق ہوتی ہے جسے قطر شروع سے کہتا آیا ہے کہ''ناجائز ناکہ بندی کا دہشت گردی کے انسداد سے کوئی تعلق نہیں، یہ محض قطر کے اقتدار اعلیٰ کو محدود کرنے اور ہماری خارجہ پالیسی کو دوسروں کے حوالے کرنے کے لیے کی گئی ہے''۔
ٹِلرسن نے کہا کہ ''ہر ملک کے لیے دوسرا کارآمد قدم یہ ہوگا کہ وہ مل بیٹھیں اور گفتگو جاری رکھیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اتحادی اور ساتھی اُس وقت مضبوط ہوں گے جب ایک ہی ہدف کے حصول کے لیے کام کریں گے، جس پر ہم سب کا اتفاق ہے کہ وہ دہشت گردی کو روکیں اور انتہا پسندی کا انسداد کریں''۔