امریکی محکمۂ انصاف نے بدھ کے روزمنی ایپلس میں پولیس کارروائیوں پر جامع سول تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، یہ تحقیقات جیوری کے اس فیصلے کے بعد شروع کی گئی ہیں جس میں تعین کیا گیا کہ پولیس افسر ڈیرک شاوین نے جارج فلائیڈ کو قتل کیا تھا۔
صدر جو بائیڈن کی جانب سے امریکہ میں منظم نسل پرستی کے مسئلے سے نمٹنے کے وعدے کے بعد، اٹارنی جینرل میرک گارلینڈ کی جانب سے یہ تحقیقات پہلا بڑا قدم ہے۔
گارلینڈ کا کہنا تھا کہ اِن تحقیقات میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ کیا محکمہ پولیس ایک خاص انداز، بشمول مظاہروں کے دنوں میں، بے جا طاقت کا استعمال کرتا رہا ہے؟ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ تحقیقات میں یہ جانچ بھی کی جائے گی کہ کیا محکمہ متعصبانہ رویہ بھی رکھتا ہے اور کیا اس کا رویہ نفسیاتی مسائل کا شکار افرد کے ساتھ غیر قانونی ہے؟
رائٹرز کا کہنا ہے کہ شاوین کی سزا یابی، امریکہ کی نسل پرستانہ تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اور سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ قانون کے نفاذ میں رویوں کی سرزنش ہے۔ فلوئیڈ کی ہلاکت پر ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے۔
گارلینڈ کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ زخم کتنے گہرے ہیں اور سماج کے بہت سے گروپوں نے اس کا براہ راست تجربہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلوئیڈ کی ہلاکت پر آنے والے فیصلے سے منی ایپلس میں پولیس سے متعلق ممکنہ امور کا حل نہیں نکلتا۔
اس ے پہلے گارلینڈ کہہ چکے ہیں کہ پولیس کے خراب رویے کو روکنا ان کی ترجیح ہے۔
گارلینڈ کا کہنا تھا کہ محکمہ انصاف کی جانب سے شروع کی جانے والی ایک الگ تحقیقات میں یہ جانچ کی جا رہی ہے کہ کیا فلوئیڈ کی ہلاکت میں ملوث پولیس افسران نے اس کے شہری حقوق کی پامالی کی تھی۔
بدھ کے روز گارلینڈ کا کہنا تھا کہ محکمہ انصاف کے عہدیداروں نے پہلے سے ہی منی ایپلس میں مختلف گروپوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تا کہ ان کے قانون کے نفاذ سے متعلق تجربات کے بارے میں پوچھا جائے اور اس کے علاوہ وہ پولیس افسران سے بھی ان کو ملنے والی تربیت اور مدد کے بارے میں بات چیت کریں گے۔