امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس کے ایک سابق پولیس اہلکار ڈیرک شاوین کو بارہ افراد پر مشتمل جیوری نے سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔
تین ہفتے سے جاری اس مقدمے کے فیصلے کے لیے تشکیل دی جانے والی جیوری دو دن تک غور و خوض کے بعد اپنے حتمی فیصلے پر پہنچی۔
خبر رساں ادارے 'ایسو سی ایٹڈ پریس' کے مطابق جیوری کے اراکین میں چھ سفید فام اور چھ سیاہ فام یا نسلی لحاظ سے متنوع امریکی شہری شامل تھے۔
جیوری نے استغاثہ اور دفاع کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ سنایا، جس کے مطابق سابق پولیس اہلکار کو غیر ارادی قتل، اقدامِ قتل یا جان بوجھ کر کیے گئے قتل کے تمام الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا ہے۔
ان الزامات کے تحت ملزم کو اگلی کئی دہائیوں کے لیے جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔ ملزم کو سزا دو مہینے بعد سنائی جائے گی۔
جیوری کے فیصلے کے بعد سابق پولیس افسر کو کمرۂ عدالت میں ہتھکڑی لگا کر تحویل میں لے لیا گیا۔
مقدمہ قتل کا فیصلہ آنے کے پیش نظر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ منی ایپلس شہر میں تین ہزار نیشنل گارڈ طلب کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی ہے۔ شہر میں اس قدر سیکیورٹی کے انتظامات گزشتہ برس جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ ایک ایسا کیس ہے، جس نے نسل پرستی پر مبنی رویوں اور امریکہ میں پولیس کے نظام پر نظر ثانی کے مطالبات کے ساتھ امریکہ اور دنیا بھر میں مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
منی ایپلس شہر کے میئر جیکب فرے اور منی سوٹا ریاست کے گورنر ٹم والز پر تنقید کی گئی تھی کہ انہوں نے فوری طور پر نیشنل گارڈ کو طلب کیوں نہ کیا۔ شہری حکام کا کہنا ہے کہ اب تک شہر کو ہونے والے نقصان کی قیمت 35 کروڑ سے زائد ہے۔ حکام کے مطابق اس میں زیادہ تر کاروباری املاک کو پہنچنے والا نقصان ہے۔
امریکہ کے جان جے کالج میں کرمنل جسٹس کے پروفیسر ایمراٹس ایلی سلورمین نے خبر رساں ادارے 'اے پی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہری انتظامیہ سخت مشکل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق ’’وہ بہت زیادہ مسلح دستوں کو کھڑا کر کے یہ تاثر بھی نہیں دے سکتے کہ شہر کو پولیس اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے، لیکن انہیں دوسری طرف ہر ممکن حالات کے لیے تیار بھی رہنا ہوگا۔‘‘
یاد رہے کہ جارج فلائیڈ کے قتل کے مقدمے کے فیصلے کے علاوہ حالیہ دنوں میں شہر کے نواحی قصبے میں پولیس کے ہاتھوں ایک 20 سالہ سیاہ فام شہری ڈانٹے رائٹ کی ہلاکت کے واقعے کے بعد بھی مظاہرے جاری ہیں۔
پچھلے ہفتے شہر کے پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر ہونے والا احتجاج پر تشدد مظاہروں میں بدل گیا تھا جب مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پانی کی بوتلیں اور پتھر برسائے۔ اس کے ردعمل میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیپر سپرے، آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کا استعمال کیا۔
شہر کی ہینی پن کاؤنٹی کے شیرف ڈیوڈ ہچنسن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ درست ہے کہ جو کچھ پچھلے چند دنوں میں جو ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہمیں اب ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ کمیونٹی محفوظ رہے۔
کئی لوگ نے 'اے پی' کو بتایا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے وعدوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
منی ایپلس کے سیڈر رورسائڈ کے علاقے کے رہنے والے برہان اسرافیل کا کہنا تھا کہ علاقے میں فوجی گاڑیوں اور اہلکاروں کی موجودگی دہشت ناک ہے۔ ان کا علاقہ شہر میں مشرقی افریقی ملکوں سے ترکِ وطن کر کے آنے والوں کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنے ملکوں سے پرتشدد حالات کی وجہ سے امریکہ منتقل ہوئے ہیں، ان کے لیے یہ ماحول بہت خوف ناک ہے۔
لیکن بہت سے دوسرے افراد کا خیال ہے کہ شہر کو کسی بھی قسم کے مشکل حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
سیاہ فام چرچ کمیونٹی کے لیڈر ریورنڈ ایان بیتھل کا کہنا ہے کہ ہم مشکل حالات میں گھرے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہوگا اور تشدد کے ذریعے ذہنی تناؤ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جارج فلائیڈ کے قتل کے مقدمے میں جارج فلائیڈ کیس کے وکلا کی جانب سے اپنے دلائل ختم کرنے کے بعد 300 سے زائد مظاہرین نے منی ایپلس کی عدالت کے باہر مارچ کیا تھا، تاہم اس موقع پر تشدد کے واقعات دیکھنے میں نہیں آئے۔