ہانگ کانگ میں چین کے نافذ کردہ نئے سیکیورٹی قانون کے بعد سوشل میڈیا ایپلی کیشن 'ٹک ٹاک' نے ہانگ کانگ میں اپنی سروسز بند کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ امریکہ نے بھی چین کی ایپس پر پابندی لگانے پر غور شروع کر دیا ہے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ ٹِک ٹاک سمیت چین کی دیگر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر پابندی پر غور کر رہا ہے۔
پیر کو 'فاکس نیوز' کو انٹرویو دیتے ہوئے مائیک پومپیو نے کہا کہ وہ ابھی یہ معاملہ صدر ٹرمپ کے سامنے لانا نہیں چاہتے لیکن اس پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل بھارت نے 'ٹک ٹاک' کو قومی سلامتی اور ملکی دفاع کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے 'ٹک ٹاک' سمیت چین کی 59 ایپلی کیشنز پر پابندی لگا دی تھی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکی قانون ساز ٹِک ٹاک کی جانب سے صارفین کے ڈیٹا کے استعمال کو ملکی سلامتی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
امریکی قانون سازوں کا ماننا ہے کہ چین کی کمپنیاں اپنے ملک کے قوانین کے تحت انٹیلی جنس کے معاملات میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مدد اور معاونت کرنے کی پابند ہیں۔
مائیک پومپیو کا چینی ایپلی کیشنز پر پابندی سے متعلق بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور چین کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں چین اور امریکہ کے ایک دوسرے پر الزامات اور پھر ہانگ کانگ میں نئے سیکیورٹی قانون کے نفاذ نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ٹک ٹاک کا ہانگ میں آپریشن بند کرنے کا اعلان
ٹِک ٹاک آئندہ چند روز میں ہانگ کانگ میں اپنی سروسز بند کرنے جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ کمپنی نے ہانگ کانگ میں چین کے سیکیورٹی قانون کے نفاذ کی وجہ سے کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ٹک ٹاک نے منگل کو کہا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں اپنے آپریشنز بند کر رہے ہیں۔
ہانگ کانگ میں نافذ چین کے نئے سیکیورٹی قانون کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو ہانگ کانگ کی انتظامیہ کو صارفین کا ڈیٹا دینا پڑ سکتا ہے۔
سیکیورٹی قانون کے آرٹیکل 43 کے تحت ہانگ کانگ کی پولیس کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم، پبلشر یا انٹرنیٹ پرووائڈر کو کوئی بھی مواد یا پیغام ہٹانے کا حکم دے سکتی ہے۔
جو سروس پرووائڈر ان احکامات کو نہیں مانیں گے انہیں 12 ہزار ڈالرز تک کا جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ٹک ٹاک کے ہانگ کانگ میں آپریشنز بند کرنے کے اعلان سے قبل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول فیس بک، واٹس ایپ، ٹیلی گرام، گوگل اور ٹوئٹر بھی ہانگ کانگ کی انتظامیہ پر واضح کر چکے ہیں کہ وہ صارفین کے ڈیٹا کے حصول کے لیے حکومتی درخواستیں نہیں لیں گے۔
ٹک ٹاک کیا ہے؟
ٹک ٹاک ایک ویڈیو ایپلی کیشن ہے جو چین کی ایک کمپنی 'بائٹ ڈانس' کی ملکیت ہے۔ لیکن اس ایپلی کیشن نے خود کو چین سے دور رکھا ہوا ہے اور ٹِک ٹاک چین میں سروسز فراہم نہیں کرتی۔
ٹِک ٹاک ماضی میں یہ وضاحت بھی کر چکی ہے کہ اس کا ڈیٹا چین میں محفوظ نہیں کیا جاتا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت نے کبھی اس سے صارفین کا ڈیٹا نہیں مانگا ہے اور اگر مستقبل میں چین کی حکومت کسی صارف کا ڈیٹا مانگتی ہے یا کوئی مواد ہٹانے کا حکم دے گی تو کمپنی کسی ایسے حکم کو قبول نہیں کرے گی۔
ٹک ٹاک جنوبی ایشائی ملکوں بالخصوص پاکستان اور بھارت میں خاصی مقبول ہے۔ اس ایپلی کیشن کو دنیا بھر میں دو ارب سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔