’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے ایک نئے قسم کے خودکش بمبار کی نشاندہی کی ہے جس کے جسم کے اندر سرجری کے ذریعے بم نصب ہوگا اور جسے ہوائی جہازوں کو اُڑانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ القاعدہ کی یمنی شاخ کے عسکریت پسند ایسے خود کش بمبار کو استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کی اِس شاخ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے اور اِس سازش پر نئی انٹیلی جینس معلومات حاصل ہونے کے بعد اوباما انتظامیہ نے غیر ملکی حکومتوں اور امریکی اور بین الاقوامی فضائی کمپنیوں کے عہدے داروں نے کئی روز سے خبردار کر رکھا ہے کہ ایسے دہشت گرد ہوائی جہازوں میں سوار ہونے کی کوشش کریں گے جِن کے جسموں کے اندر بم نصب ہوں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ عسکریت پسند باربار ایسے تجربے کرنے میں دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں کہ دھماکہ خیز مواد چھپانے کی نئی ترکیبیں آزمائی جائیں، بلکہ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ سمگلر سالہا سال سے ناجائز منشیات اپنے جسم کے اندر چھپا کرلے جاتے رہےہیں۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ دہشت گردوں نے اب تک دھماکہ خیز مواد کے لیے یہی ترکیب کیوں نہیں استعمال کی۔
صدر اوباما نے اِن فوجیوں کے خاندانوں کو جو خودکشی کریں تعزیت کے خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اِس پر’ نیویارک ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اب تک وہاؤٹ ہاؤس کی پالیسی یہ رہی ہے کہ صدر کی ہمدردی صرف اُن فوجیوں کے لواحقین کے ساتھ ہوگی جو لڑائی میں مارے جائیں۔ لیکن خودکشی کرنے والے فوجیوں کے عزیزوں کو اِس سے محروم رکھا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ قدم عزہ دار خاندانوں اور قوم کے لیے بھی حوصلہ افزا ہے، کیونکہ سابقہ پالیسی اُنھیں سرکاری طور پر مطعُون کرنے کے مترادف تھی اور جنگ کی صعوبتیں اٹھانے والوں کو قومی ممنونیت سے محروم کرنے کے برابر تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ فوج میں خودکشی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حکومت کی کافی توجہ رہی ہے۔ فوج میں پچھلے سال خود کشی کرنے والوں کی تعداد 295تھی۔
’فلاڈیلفیا انکوائرر‘ نے صدارتی نامزدگی کے ریپبلیکن امیدوار مِٹ رامنی کو مشورہ دیا ہے کہ اُنھیں یہ بات واضح کردینی چاہیئے کہ جب وہ صدر اوباما پر اقتصادی کساد بازاری کو مزید ابتر کرنے کا الزام دیتے ہیں تو اُن کی مراد کارپوریشنز سے نہیں ہے، کیونکہ کساد بازاری سرکاری سطح پر دو سال قبل ختم ہوگئی تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل نے پیش گوئی کی ہے کہ امریکی کارپوریشنز رواں سال کی دوسری سہماہی کے دوران زبردست کمائی کی رپورٹ دیں گے۔ اِن کمپنیوں کی مجموعی کمائی ایک سال قبل کے مقابلے میں 14فی صد زیادہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس حقیقت کے پیشِ نظر کہ بیشمار امریکی گھرانے ابھی تک کساد بازاری کی زد میں ہیں کیا ایسی کمپنیوں اور افراد کو جِنھوں نے اِس طوفان پر قابو پالیا ہے یہ نہیں چاہیئے کہ پوری قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں ہاتھ بٹائیں۔
اخبار کہتا ہے کہ کئی دوسری تجاویز ہیں جِن کو ٹیکسوں میں اضافہ قرار دے کر رد نہیں کرنا چاہیئے۔ إِسی طرح اخراجات میں کمی کو بھی خسارہ کم کرنے کے کسی بھی حقیقت پسندانہ منصوبے میں شامل کرنا چاہیئے۔
انتظامیہ پہلے ہی مان چکی ہے کہ میڈی کیر اور میڈک ایڈ کو بھی اِس سے مستثنیٰ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ دفاعی اخراجات میں بھی بھاری کٹوتی ہونی چاہیئے۔الغرض، اخبار کے خیال میں ایسی بہت سے مشترک باتیں ہیں جِن کی بنیاد پر خسارہ کم کرنے پر سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: