امریکی وسط مدتی انتخابات میں ووٹروں پر اثر انداز ہونے کی غیر ملکی کوششیں تیز

میری لینڈ کے شہر اناپلس میں ووٹر تین نومبر 2020 کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔

اعلیٰ امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے قبل امریکہ کا ووٹنگ کا نظام محفوظ دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم وہ اس خطرے سے بھی خبردار کررہے ہیں کہ روس اور چین جیسے ممالک کی جانب سے امریکیوں کو اس نظام کے محفوظ نہ ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی کئی ریاستی اور غیر ریاستی کردار سائبر اسپیس کے ذریعے امریکی نیٹ ورکس کی چھان بین کرنے کے لیے رسائی کر رہےہیں۔ وہ ایسی کمزوریوں کی تلاش میں ہیں جو انہیں ووٹ ڈالنے کے عمل میں مداخلت کرنے کا موقع دے سکیں۔

لیکن، عہدہ داروں کے مطابق، امریکہ نے انتخابی مداخلت کرنے والوں کی کوششوں کو روک رکھاہے۔

امریکہ کے وفاقی تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے ایک سینیئر اہلکار نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ادارے کے علم میں ایسی کوئی بھی مخالف سائبر مہم نہیں آئی ہے جو خاص طور پر امریکی انتخابات کو نشانہ بنا رہی ہو۔ ان کا بیان دوسرے چوٹی کے سا ئبر عہدہ داروں کے حالیہ جائزوں کا اعادہ ہے۔

تاہم، حساس معلومات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بیورو کے اصولوں کے تحت ایف بی آئی کے اہلکار نےنام ظاہر نہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ امریکہ کے متعدد دشمنوں کی یہ کوشش ہے کہ امریکہ کے ووٹنگ کے نظام کے بارے میں پہلے سے موجود شکوک و شبہات سے فائدہ اٹھایا جائے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا فیس بک کے غلط استعمال پر سزا ملنی چاہیے؟

اہلکار نےکہا: " ہمیں خاص طور تشویش ہے کہ بدنیت سائبر کردار، امریکی انتخابی ڈھانچے کے غیر محفوظ ہو جانے کے بارے میں جھوٹے یا مبالغہ آمیز دعوؤں کو پھیلانے یا بڑھانے کی کوشش کر سکتے ہیں"۔

اس بارے میں ایف بی آئی کے ایک اور سینیئر اہلکار نے کہا کہ روس، چین اور ایران ، امریکی نظام کے بارے میں بیانیے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا ہم پہلے ایسا دیکھ چکے ہیں خاص طور سے روس کی جانب سے ۔

ایک ممکنہ مثال اس وقت سامنے آئی جب "الیکشن انٹیگریٹی پارٹنرشپ" نے پیر کو روسی ریاستی میڈیا کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی کی کئی ٹویٹس کی نشاندہی کی جن میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ امریکی ووٹنگ مشینیں ہیکنگ اور دیگر اقسام کی ہیرا پھیری سے متا ثر ہو سکتی ہے۔

روسی سرکاری میڈیا میں کام کرنے والی ایک صحافی نے حال ہی میں ٹوئٹر کے ذریعے امریکی انتخابات کے بارے میں جھوٹے اور گمراہ کن دعوے پھیلائے ۔ ان ٹوئٹس کا مقصد یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کو روس میں ضم کرنے کے لیے روسی ریفرنڈم کو قانونی جواز فراہم کرنا اورساتھ ہی امریکی جمہوری عمل کوغیر قانونی قرار دینا تھا۔

الیکشن انٹیگریٹی پروگرام کے مطابق اس بیانیے کا ترجمہ کرکے اسےتیزی سےانگریزی کے علاوہ جاپانی، اطالوی اور ہسپانوی زبانوں سمیت مختلف زبانوں میں پھیلایا گیا۔

وائس آف امریکہ نے روسی اور چینی سفارت خانوں اور اقوام متحدہ میں ایرانی مشن سے ایف بی آئی کی وارننگ پر تبصرہ کے لیے رابطے کیے لیکن فوری طور پر ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

روس کی جانب سے آر ٹی اور سپٹنک جیسے سرکاری میڈیا پلیٹ فارمز سے جھوٹی اطلاعات کا پھیلانا کوئی نئی کوشش نہیں ہے۔
اسی طرح کریملن امریکی انتخابات کی سیکیورٹی کے بارے میں امریکی شہریوں کے منقسم بیانیے کو بھی ہوا دیتا رہا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی انتخابات اور بیرونی مداخلت کے خدشات

لیکن ایف بی آئی نے پھر بھی خبردار کیا ہے کہ آ خری امریکی انتخابات کے بعد سے ایسی مہمات میں اضافہ ہوا ہے اور پختگی آئی ہے۔

ایف بی آئی کے دوسرے سینئر اہلکار نے بتایا کہ یہ مہمات امریکی نظام کے متعلق مزید وسعت کے ساتھ کام کر رہی ہیں تاکہ وہ امریکہ کے اندر اور عالمی سطح دونوں پر تنظیموں کو شناخت کرکے اور بھرتیاں کرکے انہیں اپنے ساتھ شامل کر لیں۔

چین کا رویہ بھی امریکہ کے سن 2020 کے انتخابات کے بعد زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔ اس وقت امریکی انٹیلی جنس حکام نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ بیجنگ نے امریکی انتخابی عمل میں ملوث نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

گزشتہ مارچ میں امریکی محکمہ انصاف نے چین کی اسٹیٹ سیکیورٹی کی وزارت کے ایک رکن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ایک پرائیویٹ تفتیش کار کی خدمات حاصل کر کے چینی حکومت کے ایک سابق مخالف اوراب امریکی شہری کی مہم میں خلل ڈالنا چاہتا تھا، جنہوں نے کانگرس کاالیکشن لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

ایف بی آئی نے اسے ایک "اہم تبدیلی" سے تعبیر کیا۔

امریکی الیکشن میں ایران کی مداخلت کے بارے میں ایف بی آئی کے سینئر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرہ ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے سن 2020 کے انتخابات میں تہران کی مداخلت پر آمادگی کے حوالے سے کہا کہ ایران نے ووٹر رجسٹریشن ڈیٹا بیس کو ہیک کیا اور اس سے چرائی گئی معلومات کو ووٹرز کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔

اس وقت ایران کی وزارت خارجہ نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔