امریکی فوج کے اعلیٰ ترین جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ افغان جنگ 'اسٹریٹجک ناکامی' ہے جسے شاید کبھی بھی جیتا نہیں جا سکتا تھا۔
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے منگل کو چھ گھنٹے کی سماعت میں فوجی جنرلز نے افغانستان میں امریکہ کی فوج کی کوششوں اور قربانیوں کا بھرپور دفاع کیا۔
فوجی حکام اور اراکینِ کانگریس نے اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کے فیصلے کی تعریف کی البتہ انخلا کے آخری دنوں میں ہونے والی 'تباہی' کی مذمت کی۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی اور ملک کے اعلیٰ فوجی افسروں نے اراکینِ کانگریس کو بتایا کہ افغانستان کی جنگ لاجسٹکس کے اعتبار سے کامیابی اور دفاعی اعتبار سے ناکامی تھی۔
جنرل ملی نے اراکینِ کانگریس کو بتایا کہ افغانستان سے آخری دنوں میں ایک لاکھ 24 ہزار افراد کا انخلا کیا گیا جن میں چھ ہزار امریکی بھی شامل تھے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا کہنا تھا کہ جنگ کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ دفاعی اعتبار سے ناکامی کے نتائج ہیں۔ دشمن آج کابل پر قابض ہے۔ صورتِ حال کو اس کے علاوہ بیان کرنے کا کوئی اور راستہ موجود نہیں۔ یہ نتائج 20 برس کے اجتماعی اثرات ہیں نہ کہ یہ سب 20 دن میں ہوا ہے۔"
جنرل فرینک میکنزی نے، جو یو ایس سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ہیں، جنرل ملی کے ہمراہ اپنے بیان میں کہا کہ 2020 میں ہونے والے دوحہ معاہدے نے امریکہ کے انخلا کی راہ ہموار کی تھی۔ ان کے مطابق اس عمل کے افغانستان کی فورسز پر گہرے نفسیاتی اثرات پڑے اور ممکن ہے کہ اسی چیز نے ان کی شکست کو تیز تر بنا دیا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان فورسز اس کے بعد عزم اور حوصلے کے اعتبار سے بہت کمزور ہو گئی تھیں۔
مارک ملی اور لائیڈ آسٹن کے استعفے کا مطالبہ
یہ نرم رو تجزیہ بعض اراکین کانگریس کا غصہ کم نہ کر سکا اور کمیٹی میں شامل دو رہنماؤں نے امریکہ کے انخلا کے طریقۂ کار پر جنرل ملی اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
ریاست نبراسکا سے ری پبلکن سینیٹر ڈیب فسچر نے کہا کہ افغانستان سے انخلا ایک تباہی تھی۔
ایک اور ری پبلکن سینیٹر جونی آنسٹ نے افغانستان سے امریکہ کے انخلا کو بدنظمی قرار دیا۔ سینیٹر جونی آنسٹ حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک خود کش حملے میں 13 امریکی فوجیوں اور 173 کے قریب افغان شہریوں کی ہلاکت کی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جونی آنسٹ نے کہا کہ گزشتہ ماہ ہمارے سروس ممبرز کی ہلاکت اور امریکی اور اتحادیوں کا وہاں رہ جانا شرمناک تھا اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
تاہم بعض ڈیموکریٹس نے صدر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کی جانب سے افغان جنگ کو بالآخر ختم کرنے پر ان کی تعریف کی۔
ریاست ورجینیا سے سینیٹر ٹم کین نے کہا کہ یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا اور یہ فیصلہ لینا صحیح اقدام تھا اور یہ پہلے لے لیا جانا چاہیے تھا۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹ رہنماؤں نے ری پبلکن اراکین کی تنقید کا جواب بھی دیا۔ ڈیموکریٹ رہنما الزبتھ وارن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ آخری پانچ ماہ ناکامی کے تھے اور اس سے قبل سب درست تھا تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے حالات پر توجہ نہیں دی۔
سینیٹ میں زیادہ تر اراکین نے تنقید کا رخ وائٹ ہاؤس کی جانب رکھا اور ری پبلکن اراکین نے صدر جو بائیڈن کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور بعض نے ان پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا کہ صدر نے گزشتہ ماہ نشریاتی ادارے ’اے بی سی‘ کے پروگرام میں کہا تھا کہ ان کے چوٹی کے مشیروں نے ڈھائی ہزار فوجی اہلکار افغانستان میں رکھنے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔
SEE ALSO: حکومت چلانے کے لیے فی الوقت ظاہر شاہ کے آئین کی چند شقوں پر عمل کیا جائے گا، طالباندوسری جانب منگل کو جنرل ملی اور سینٹ کام کے سربراہ جنرل میکنزی نے اراکین کانگریس کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن کی صدارت کے شروع کے ایام میں انہوں نے ڈھائی ہزار سے ساڑھے تین ہزار فوجی اہلکار رکھنے کا مشورہ دیا تھا کیوں کہ طالبان نے دوحہ معاہدے میں شامل وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا تھا۔
جنرل میکنزی نے خیال ظاہر کیا کہ ڈھائی ہزار فوجیوں کا وہاں ہونا ایک مناسب تعداد تھی کہ اگر ہم اس تعداد سے نیچے جاتے تو افغان حکومت اور فوج کو ٹوٹتا ہوا دیکھتے۔
افغانستان میں رہنے کی قیمت کیا تھی؟
ادھر منگل ہی کو وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے صدر بائیڈن کے افغانستان میں امریکہ کی جنگ ختم کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی طرح کی آرا تھیں جس کا ایک ثبوت آج کی سینیٹ کی کارروائی میں بھی ملتا ہے۔ یہ تجاویز صدر کو پیش کی گئی تھیں۔ وہ تجاویز صدر کو، ان کے نیشنل سیکیورٹی کے مشیر اور ان کی قومی سلامتی کی ٹیم کو ارسال کی گئی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنرل ملی نے منگل کو اپنی شہادت میں یہ بھی کہا کہ امریکہ کی حمایت والی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اگرچہ افغانستان میں امریکہ کی فوج کا قیام ممکن ہو سکتا تھا البتہ اس کی ایک قیمت ہوتی۔
جنرل ملی نے کہا کہ یکم ستمبر کو امریکہ ایک بار پھر طالبان کے ساتھ جنگ پر غور کر رہا تھا، لیکن اس کے لیے ہمیں مزید 25 ہزار فوجیوں کو افغانستان بھجوانا پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دوبارہ بگرام ائر بیس کو اپنے کنٹرول میں لینا پڑتا۔ کابل کو چھ ہزار طالبان سے پاک کرنا پڑتا۔ جنرل ملی کے بقول اس کام میں بڑے پیمانے پر امریکی فوجیوں کی اموات ہو سکتی تھیں اور اس سے وہ ان امریکی شہریوں کو بھی بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہو جاتے جو اب بھی وہاں موجود ہیں۔
جنرل ملی اور میکنزی نے بتایا کہ دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے بر خلاف طالبان نے ابھی تک القاعدہ کے ساتھ پرانے تعلقات ختم نہیں کیے۔
جنرل ملی کے بقول القاعدہ اب بھی امریکہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔
'واپس افغانستان نہیں جا رہے'
وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اراکینِ کانگریس کو بتایا کہ پینٹاگان کی توجہ خطرات پر ہے البتہ وہ القاعدہ اور داعش خراسان کے خلاف ضرورت پڑنے پر فضائی حملوں کی اہلیت استعمال میں لائیں گے۔
وزیرِ دفاع نے کہا کہ واپس افغانستان جانے کے لیے ہمیں کوئی ہدف نہیں دیا گیا۔
بائیڈن انتظامیہ پر افغانستان سے انخلا پر جاری تنقید کے حوالے سے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے منگل کو سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ انخلا اتنے ہی بہتر انداز سے کیا گیا جس قدر ممکن ہو سکتا تھا اور دنیا کی کوئی دوسری فوج یہ کام اس سے بہتر انداز میں نہیں کر سکتی تھی۔
انہوں نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ یہ امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی انخلا تھا جسے صرف 17 دن میں مکمل کیا گیا۔ 70 ہزار سے 80 ہزار افراد کو نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، جب افغانستان سے ایک لاکھ 24 ہزار سے زیادہ افراد کو نکالا گیا۔
طیاروں کے ذریعے انخلا کے پہلے دو دن کو مشکل قرار دیتے ہوئے آسٹن نے کہا کہ طالبان کے غیر متوقع طور پر تیزی سے قبضے کے بعد ایئرپورٹ پر بہت بڑا ہجوم جمع تھا۔