بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے استغاثہ نے پیر کے روز ہیگ میں ٹربیونل سے درخواست کی ہے کہ افغانستان میں طالبان اور داعش خراسان کی جانب سے سرزد ہونے والے مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش کا عمل جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ گزشتہ 15 سال سے افغانستان کے جنگ سے متاثرہ ملک میں مبینہ جنگی جرائم سرزد ہونے کے معاملے کی چھان بین جاری رکھے ہوئے تھا، لیکن ایک سال قبل تفتیش کا یہ عمل امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کی جانب سے التوا میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس وقت کی افغان حکومت کا کہنا تھا کہ وہ اپنے طور پر تفتیش کا عمل پورا کرے گی۔ تاہم ایک ماہ قبل طالبان کے ہاتھوں حکومت اقتدار کھو بیٹھی۔
جنگی جرائم کی تفتیش کے حوالے سے جب انفرادی طور پر رکن ممالک اپنے طور پر چھان بین کرنے میں ناکام ہو جائیں یا وہ ایسا اقدام کرنے کی خواہش ہی نہ رکھتے ہوں تو آئی سی سی امید کی آخری کرن خیال کی جاتی ہے۔
آئی سی سی کے نئے پراسیکیوٹر کریم خان نے کہا ہے کہ چونکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ کابل حکومت اقتدار میں نہیں رہی، اس لیے ''اہمیت کا حامل معاملہ یہ ہے کہ اب حالات یکسر بدل چکے ہیں''۔
کریم خان کے بقول، ''صورت حال کا احتیاط سے جائرہ لینے کے بعد، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت افغانستان کے اندر حقیقی اور مؤثر تفتیش کے امکانات معدوم سے ہو گئے ہیں''۔
اب آئی سی سی کا جج کریم خان کی درحواست کی سماعت کرے گا۔ تفتیش کار تمام فریقین کی جانب سے مبینہ طور پر سرزد ہونے والے جنگی جرائم کی چھان بین کرتے رہے ہیں، جس میں امریکی افواج، افغان حکومت کی فوج اور طالبان جنگجو شامل ہیں۔
خان نے کہا کہ وہ اپنی توجہ طالبان اور دولت اسلامیہ-خراسان کی کارروائیوں پر مبذول کرنا چاہتے ہیں۔ داعش خراسان افغانستان میں کارفرما دولت اسلامیہ کا ایک دہشت گرد دھڑا ہے؛ اور یہ کہ وہ امریکی افواج کی جانب سے مبینہ جنگی جرائم کی چھان بین کی ترجیح بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس سے قبل جب امریکی افواج کی جانب سے مبینہ طور پر سرزد ہونے والے جنگی جرائم کا معاملہ اٹھایا گیا تھا تو اس پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے برہمی کا اظہار کیا تھا، جس نے اس معاملے پر خان کے پیش رو، فتو بنسودا پر پابندی لاگو کر دی تھی۔
صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے اس سال کے اوائل میں بنسودا کے خلاف پابندیاں اٹھا لی تھیں۔
کریم خان نے کہا کہ چھان بین کو نئے سرے سے شروع کرنے کی ضرورت ہے چونکہ ''طالبان اور داعش کی جانب سے مبینہ جنگی جرائم کی شدت اور نوعیت توجہ طلب معاملہ ہے'' اور ایسے مقدمات قائم کرنے کی ضرورت ہے جو قابل اعتبار ہوں اور کسی شک و شبہے سے بالا تر کمرہ عدالت میں ثابت کیے جا سکیں۔
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ نئی تفتیش کا مرکز 26 اگست کا کابل ایئرپورٹ پر کیا جانے والا مہلک حملہ ہے، جس کی ذمہ داری داعش خراساں قبول کر چکا ہے، جس میں 13 امریکی فوجی اہل کار اور 100 سے زائد افغان سولین ہلاک ہوئے۔
[اس خبر میں شامل کچھ مواد رائٹرز اور ایجنسی فرانس پریس سے لیا گیا ہے]