اخبار نیو یارک ٹائمز نے نے اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے مسٹر گیٹس کی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے جانشین کے لیے درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ مسٹر گیٹس نے عراق سے لگ بھگ ایک لاکھ امریکی فوجیوں کی کامیاب واپسی کی قیادت کی اور افغانستان میں نئی اور بہتر وسائل کی حکمت عملی وضع کر کے وہاں حالات کو اس حد تک سازگار بنا دیا کہ اب وہاں سے بھی امریکی فوجیوں کی وطن واپسی ہو سکے گی ۔
اخبار لکھتا ہے کہ مسٹر گیٹس کے جانشین لیون پینیٹا کے لیے چیلنج صرف یہ ہی نہیں ہو گا کہ وہ مسٹر گیٹس کے بنائے ہوئے ریکارڈ کو مزید بہت آگے تک لے کرجائیں بلکہ ا نہیں امریکہ کے انتہائی اہم مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر اپنے فوجی بجٹ میں بھی مزید اصلاحات کرنا ہوں گی ۔ اخبار لکھتا ہے کہ ایسے میں کہ دو جنگیں ابھی جاری ہیں اور دوسرے خطرات موجود ہیں بیرون ملک اخراجات میں کمی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا ۔ اس کے لیے امریکہ کی عالمی ترجیحات اور حکمت عملی کا حقیقت پسندانہ جائزہ درکار ہو گا۔ اور یہ وہ معاملات ہیں کہ جن کا فیصلہ پینٹگان خود سے نہیں کر سکتا ۔ لیکن مسٹر پینٹا کو یہ یقینی بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہو گا کہ وائٹ ہاؤس میں فوجی راہنماؤں کی بات بھی سنی جائے اور اس چیز کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ صدر کے فیصلوں پر صحیح معنوں میں عمل در آمد ہو سکے ۔
اخبار مشورہ دیتا ہے کہ مسٹر پینٹا کو چاہیے کہ وہ نیٹو اور دوسرے اتحادیوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مستقبل کی فوجی کارروائیوں میں فنڈز زیادہ موثر طریقے سے ادا کریں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں افغانستان سے محفوظ ا ور قابل عزت واپسی کی حکمت عملی ترتیب دینے میں اوباما انتظامیہ کی مدد کرنا ہوگی ایک ایسی حکمت عملی جس کی بنیاد بجٹ کے دباؤ نہیں بلکہ امریکی مفادات ہونے چاہییں
اخبار اپنا مضمون اس اہم نکتے پر سمیٹتا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کا مطلب عالمی فوجی ذمہ داریوں سے دستبرداری نہیں ہونا چاہیے ۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ لیبیا جیسے مقامات میں غیر متوقع طور پر مداخلت کے لیے تیار رہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ چین کے فوجی عزائم اور صلاحیتوں کو نظر انداز کرنے کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا ۔
اخبار شکاگو ٹریبیون نے آئی ایم ایف کی نئی اور پہلی خاتون سر براہ کرسٹین لیگارڈےکی تقرری کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ کرسٹین دنیا بھر کے ایک سب سے اہم مالیاتی عہدے کو ایسے وقت میں سنبھال رہی ہیں جب ادارے کو کسی بھی چیز سے زیادہ ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ کچھ نقادوں کی یہ تنقید کہ مز کرسٹین بنیادی ایک وکیل ہیں نہ کہ ایک ماہر اقتصادیات اور وہ عالمی پیمانے کے ایک اقتصادی ادار ے کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتیں یا یہ کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے وہ ایک عالمی اقتصادی ادارے کو بہتر انداز میں چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں کمزور دلائل اور ان کی صلاحیتوں اور شخصیت کے بارے میں کم علمی کے غماز ہیں ، کیوں کہ اخبار کے بقول55سالہ لیگارڈے بہت سی انتظامی اور پیشہ ورانہ خوبیوں اور صلاحیتوں کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی امور پر بھی بھر پور دسترس رکھتی ہیں ۔اورا س کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ موجودہ عہدے تک پہنچنے کے لیے ادارے کے بورڈ کے 24 منتظمین پر سبقت حاصل کر چکی ہیں جو سب کے سب مرد تھے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ شواہد اور سائنسی جائزے یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ مالیاتی شعبوں میں خواتین کی کارکردگی مردوں سے بہتر ہوتی ہے ۔ اخبار اس ضمن میں نیو یارک کے ایک مستند ادارے کی 2007 کی ایک ریسرچ کا حوالہ دیتا ہے جس سے ظاہر ہوا تھا کہ جن 500 کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی تعداد زیادہ تھی انہوں نے مالی اعتبار سے ان کمپنیوں کی نسبت اوسطاً زیادہ اچھی کارکار کردگی دکھائی جہاں ان عہدوں پر ان کی تعداد کم تھی ۔
اسی طرح عالمی غربت کا جائزہ لینے والے اقتصادی ماہرین کو معلوم ہوا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں اس وقت حالات بہتر ہوتے ہیں جب ان کی اقتصادی لگامیں خواتین کے کنٹرول میں ہوں ۔
اخبار کرسٹین کی آٓئی ایم ایف کے ایک سر براہ کے طور پر آمد کو ادارے کے لیے تازہ ہوا کا ایک جھونکا قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس عالمی ادارے کی ایک خاتون سر براہ کے طور پر بھی ادارے میں خوش آئند تبدیلیاں لے کر آئیں گی۔
اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے ایک اداریےمیں نیند سے محروم ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کےلیے یکم جولائی سےنافذ ہونے والے نئے ضابطوں کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ چالیس سال قبل جولائی ہی کے مہینے میں نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونےوالی ایک ریسرچ سے ظاہر ہوا تھا کہ نیند سےمحروم ریذیڈنٹ ڈاکٹر اپنے ان ساتھی ڈاکٹروں کی نسبت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں جو اپنی نیند پوری کر چکے ہوتے ہیں ۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس ریسرچ کے نتائج کو چالیس سال تک نظر انداز کیا گیا ۔لیکن اب گزشتہ جمعے سے نافذ ہونے والے ان نئے ضابطوں میں اس ریسرچ اور اس کے بعد آنے والی متعدد ریسرچز کو سامنے رکھتے ہوئے میڈیکل اسکول کے نئے گریجوایٹس کے لیے کام کرنےکے گھنٹوں کو سولہ گھنٹوں تک محدود کر دیاگیا ہے جب کہ سیکنڈ ائر یا اس کے بعد کے برسوں میں وہ 28 گھنٹے تک کی شفٹ میں کام کرسکیں گے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ میڈیکل تربیت کے کلچر میں تربیت پانے والے ڈاکٹروں کو اس بنیاد پر طویل گھنٹوں کی شفٹس میں کام پر رکھا جاتا ہے کہ اس سے انہیں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے جبکہ ہسپتالوں کو بھی تربیتی ڈاکٹروں سے طویل گھنٹوں کی شفٹس میں کام کروانا سستا پڑتا ہےاور غالباً یہ ہی وجہ ہے کہ طبی شعبے کے ماہر اور منتطمین کے ساتھ ساتھ ایکریڈٹنگ کونسل اس کے باوجود ابھی تک ان نئے ضابطوں کےخلاف مزاحمت کر رہی ہےکہ اس بارےمیں سائنسی شواہد میں اضافہ ہو ا ہے کہ نیند کی کمی ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی کارکردگی کو متاثر کر تی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں میں بھی لوگوں نے بھی تربیتی ڈاکٹروں کے کام کے گھنٹوں کو کم کرنے کے حق میں رائے دی ہے ، اس لیے انسانی زندگیوں کی حفاظت کے پیش نظر اور رائےعامہ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو ان نئے ضابطوں پر سختی سےعمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے ۔اخبار لکھتا ہے کہ ہم اس سلسلے میں کسی اور ریسرچ کے نتائج کے سامنے آنے کے لیے مزید چالیس سال تک انتظار کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔