وائٹ ہاؤس ترجمان نے جمعے کے روز کہا کہ ابو طالبی کے معاملے پر امریکہ نے ایرانی اہل کاروں پر اپنا مؤقف واضح کردیا ہے
واشنگٹن —
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اُس نے اقوام متحدہ اور ایران کو مطلع کر دیا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو ویزا جاری نہیں کرے گا، جسے ایران اقوام متحدہ میں اپنا نیا سفیر مقرر کرنا چاہتا ہے۔
امریکی حکام حامد ابو طالبی کے چناؤ کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں، کیونکہ وہ مبینہ طور پر 1979ء میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے قبضے کے واقعے میں ملوث رہے ہیں۔
اُن پر الزام ہے کہ وہ مسلمان طلبا کےاُس گروہ کا حصہ تھے جِس نے 52 امریکی سفارت کاروں کو 444 دِنوں تک یرغمال بنائے رکھا، جسے ایران کے یرغمالی بحران کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان جے کارنی نے جمعے کے روز کہا کہ ابو طالبی کے معاملے پر امریکہ نے ایرانی اہل کاروں پر اپنا مؤقف واضح کردیا ہے۔
کارنی نے ابو طالبی کے بارے میں پچھلے ہفتے دیے گئے اپنے بیان کا اعادہ کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ’قابلِ عمل‘ نہیں ہے۔
ابو طالبی ایرانی سفیر کے طور پر بیلجئیم، یورپی یونین، اٹلی اور آسٹریلیا میں کام کر چکے ہیں۔
وہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ امام کے کہنے کے مطابق، مسلمان طلبا کے اُس گروپ کے لیے محدود طور پر ملوث رہے تھے، جو ترجمے اور مذاکرات کے کردار تک محدود تھا۔
یرغمالیوں کا بحران متعدد اعلیٰ ایرانی سیاسی شخصیات کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل لمحہ تھا، اور جس کے نتیجے میں امریکہ اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔
امریکی حکام حامد ابو طالبی کے چناؤ کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں، کیونکہ وہ مبینہ طور پر 1979ء میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے قبضے کے واقعے میں ملوث رہے ہیں۔
اُن پر الزام ہے کہ وہ مسلمان طلبا کےاُس گروہ کا حصہ تھے جِس نے 52 امریکی سفارت کاروں کو 444 دِنوں تک یرغمال بنائے رکھا، جسے ایران کے یرغمالی بحران کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان جے کارنی نے جمعے کے روز کہا کہ ابو طالبی کے معاملے پر امریکہ نے ایرانی اہل کاروں پر اپنا مؤقف واضح کردیا ہے۔
کارنی نے ابو طالبی کے بارے میں پچھلے ہفتے دیے گئے اپنے بیان کا اعادہ کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ’قابلِ عمل‘ نہیں ہے۔
ابو طالبی ایرانی سفیر کے طور پر بیلجئیم، یورپی یونین، اٹلی اور آسٹریلیا میں کام کر چکے ہیں۔
وہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ امام کے کہنے کے مطابق، مسلمان طلبا کے اُس گروپ کے لیے محدود طور پر ملوث رہے تھے، جو ترجمے اور مذاکرات کے کردار تک محدود تھا۔
یرغمالیوں کا بحران متعدد اعلیٰ ایرانی سیاسی شخصیات کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل لمحہ تھا، اور جس کے نتیجے میں امریکہ اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔