رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الوقت رومنی اور صدر براک اوباما کے درمیان برابر کا مقابلہ ہے
امریکہ کے صدارتی انتخاب کا اگلا بڑا مرحلہ شروع ہونے والا ہے ۔ پیر کے روز ریاست فلوریڈا کے شہرٹمپا میں ریپبلیکن پارٹی کا کنونشن شروع ہو گا جس میں مِٹ رومنی کو صدارت کے عہدے کے لیے باقاعدہ طور پر نامزد کیا جائے گا ۔ اس کے ایک ہفتے بعد، ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر شارلوٹے میں ڈیموکریٹس اپنے کنونشن کے لیے جمع ہوں گے اور صدر براک اوباما کو نامزد کریں گے۔
سیاسی کنونشنوں میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے صدارتی امیدواروں کےانتخاب کی روایت،کئی عشرے پہلے ختم ہو چکی ہے ۔ اب امیدواروں کا انتخاب ہر ریاست میں پرائمری اور کاکس کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے، اور کنونشنوں میں ہر پارٹی اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنے اور اپنے امید وار کی نمایاں خصوصیات اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
Quinnipiac University Polling Institute کے پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ، کنونشنوں کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا شو ہوتے ہیں۔ ا ن میں ہر پارٹی خود کو بہترین انداز سے پیش کرتی ہے، اور ووٹروں کو بتاتی ہے کہ اس کا پروگرام کیا ہے، اس کے امیدوار کون ہیں، اور ان کے خیالات اور نظریات کیا ہیں۔
اس سال ٹمپا میں منعقد ہونے والا ریپبلیکن کنونشن ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر اور پارٹی کے امیدوار مٹ رومنی کے لیے خاص طور سے اہم ہوگا۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الوقت رومنی اور صدر براک اوباما کے درمیان برابر کا مقابلہ ہے ۔
صدر کے مقابلے میں مسٹر رومنی کی شہرت کم ہے، اور رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ذاتی حیثیت میں لوگ مسٹر اوباما کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ لہٰذا ، اس کنونشن کے ذریعے ریپبلیکن امید وار کو اپنی پالیسیوں اور اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کا موقع ملے گا۔
مسٹر رومنی کہتے ہیں کہ بزنس مین کی حیثیت سے انہیں جو وسیع تجربہ حاصل ہے، اس سے امریکی معیشت کی حالت بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔ ان کے بقول، صدر کا خیال ہے کہ حکومت معیشت کو تخلیق کرتی ہے اور اسے پھلنے پھولنے کی اجازت دیتی ہے ۔ اس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ ہماری معیشت آزاد لوگوں کی محنت کا ثمر ہے اور آزادی ہی ہماری معیشت کو آگے بڑھاتی ہے ۔
مسٹر رومنی نے ریاست وسکانسن سے ایوانِ نمائندگان کے رکن پال رائن کو اپنے ساتھ نائب صدارت کے انتخاب کے لیے چنا ہے اور اس سے ریپبلیکنز میں نیا جوش و جذبہ پیدا ہوا ہے ۔ کنونشن میں، مسٹر رومنی اوررائن دونوں تقریریں کریں گے ۔
American Enterprise Institute کے سیاسی تجزیہ کار نارمن آرسٹائین کہتے ہیں کہ ریپبلیکن کنونشن سے سابق گورنر رومنی کو ووٹروں میں اپنا تاثر بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
نارمن آرسٹائین کے الفاظ ہیں: ’رومنی کو اب یہ موقع ملا ہے کہ وہ یہ دکھا سکیں کہ وہ کوئی سخت گیر، تنگ نظر اور عام لوگوں سے الگ تھلگ مالدار شخص نہیں ہیں، بلکہ گرم جوش اور گھر بار والے فرد ہیں جنہیں دوسروں کی بھی فکر رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں یہ اہلیت بھی ہے کہ وہ ملک کو صحیح سمت میں آگے لے جا سکیں‘۔
ریپبلیکن کنونشن کے بعد والے ہفتے میں، ڈیموکریٹس شمالی کیرولینا کے شہر شارلوٹ میں جمع ہوں گے اور صدر اوباما کو چار سال کی دوسری مدت کے لیے نامزد کریں گے ۔
مسٹر اوباما یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ معیشت کی حالت اتنی اچھی نہیں ہے جتنی وہ چاہتے ہیں۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ مسٹر رومنی اور ریپبلیکنز مالداروں لوگوں کے لیے ٹیکس کم کر دیں گے اور ان کے علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے قانون کو منسوخ کر دیں گے، جس سے اوسط درجے کے کروڑوں امریکیوں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔
اومابا کے بقول، ’امریکہ کو آگے لے جانے کے لیے ان کا جو تصور ہے وہ غلط ہے ۔ یہ ایسا تصور نہیں ہے جسے قبول کرنا آپ کے لیے ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر کا انتخاب اہم ہے، اور اسی لیے میں صدارت کی دوسری مدت کے لیے انتخاب لڑ رہا ہوں‘۔
تجزیہ کارنارمن آرسٹائین کہتے ہیں کہ جب صدر نارتھ کیرولائنا میں کنونشن سے خطاب کریں گے، تو ان کے سامنے مختلف قسم کا چیلنج ہوگا ۔ وہ کہتے ہیں کہ،’آپ یہ بتانا چاہیں گے کہ آپ کمانڈر ان چیف ہیں ۔ آپ ان چیزوں پر زور دینا چاہیں گے جو آپ نے کی ہیں،جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ آپ مضبوط اعصاب اور زبردست قوتِ فیصلہ کے مالک ہیں۔ان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت بھی شامل ہے ‘۔
دونوں پارٹیوں کےکنونشن ختم ہونے کے بعد، صدارتی انتخاب کی مہم اور تیز ہو جائے گی اور دونوں امید وار اپنی توجہ ان اہم ریاستوں پر مرکوز کریں گے جہاں ان دونوں میں برابر کا مقابلہ ہے ۔
انتخابی مہم کا اگلا بڑا متحان 3 اکتوبر کو شروع ہو گا جب دونوں امیدوار مباحثوں کے ایک سلسلے میں شرکت کریں گے جنہیں پورے امریکہ میں ٹیلیویژن پر دکھایا جائے گا۔ کُل تین صدارتی مباحثے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، نائب صدارت کے امیدواروں، ریپبلیکن پال رائن اور موجودہ نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان بھی ایک مباحثہ ہوگا ۔
سیاسی کنونشنوں میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے صدارتی امیدواروں کےانتخاب کی روایت،کئی عشرے پہلے ختم ہو چکی ہے ۔ اب امیدواروں کا انتخاب ہر ریاست میں پرائمری اور کاکس کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے، اور کنونشنوں میں ہر پارٹی اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنے اور اپنے امید وار کی نمایاں خصوصیات اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
Quinnipiac University Polling Institute کے پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ، کنونشنوں کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا شو ہوتے ہیں۔ ا ن میں ہر پارٹی خود کو بہترین انداز سے پیش کرتی ہے، اور ووٹروں کو بتاتی ہے کہ اس کا پروگرام کیا ہے، اس کے امیدوار کون ہیں، اور ان کے خیالات اور نظریات کیا ہیں۔
اس سال ٹمپا میں منعقد ہونے والا ریپبلیکن کنونشن ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر اور پارٹی کے امیدوار مٹ رومنی کے لیے خاص طور سے اہم ہوگا۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الوقت رومنی اور صدر براک اوباما کے درمیان برابر کا مقابلہ ہے ۔
صدر کے مقابلے میں مسٹر رومنی کی شہرت کم ہے، اور رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ذاتی حیثیت میں لوگ مسٹر اوباما کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ لہٰذا ، اس کنونشن کے ذریعے ریپبلیکن امید وار کو اپنی پالیسیوں اور اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کا موقع ملے گا۔
مسٹر رومنی کہتے ہیں کہ بزنس مین کی حیثیت سے انہیں جو وسیع تجربہ حاصل ہے، اس سے امریکی معیشت کی حالت بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔ ان کے بقول، صدر کا خیال ہے کہ حکومت معیشت کو تخلیق کرتی ہے اور اسے پھلنے پھولنے کی اجازت دیتی ہے ۔ اس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ ہماری معیشت آزاد لوگوں کی محنت کا ثمر ہے اور آزادی ہی ہماری معیشت کو آگے بڑھاتی ہے ۔
مسٹر رومنی نے ریاست وسکانسن سے ایوانِ نمائندگان کے رکن پال رائن کو اپنے ساتھ نائب صدارت کے انتخاب کے لیے چنا ہے اور اس سے ریپبلیکنز میں نیا جوش و جذبہ پیدا ہوا ہے ۔ کنونشن میں، مسٹر رومنی اوررائن دونوں تقریریں کریں گے ۔
American Enterprise Institute کے سیاسی تجزیہ کار نارمن آرسٹائین کہتے ہیں کہ ریپبلیکن کنونشن سے سابق گورنر رومنی کو ووٹروں میں اپنا تاثر بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
نارمن آرسٹائین کے الفاظ ہیں: ’رومنی کو اب یہ موقع ملا ہے کہ وہ یہ دکھا سکیں کہ وہ کوئی سخت گیر، تنگ نظر اور عام لوگوں سے الگ تھلگ مالدار شخص نہیں ہیں، بلکہ گرم جوش اور گھر بار والے فرد ہیں جنہیں دوسروں کی بھی فکر رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں یہ اہلیت بھی ہے کہ وہ ملک کو صحیح سمت میں آگے لے جا سکیں‘۔
ریپبلیکن کنونشن کے بعد والے ہفتے میں، ڈیموکریٹس شمالی کیرولینا کے شہر شارلوٹ میں جمع ہوں گے اور صدر اوباما کو چار سال کی دوسری مدت کے لیے نامزد کریں گے ۔
مسٹر اوباما یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ معیشت کی حالت اتنی اچھی نہیں ہے جتنی وہ چاہتے ہیں۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ مسٹر رومنی اور ریپبلیکنز مالداروں لوگوں کے لیے ٹیکس کم کر دیں گے اور ان کے علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے قانون کو منسوخ کر دیں گے، جس سے اوسط درجے کے کروڑوں امریکیوں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔
اومابا کے بقول، ’امریکہ کو آگے لے جانے کے لیے ان کا جو تصور ہے وہ غلط ہے ۔ یہ ایسا تصور نہیں ہے جسے قبول کرنا آپ کے لیے ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر کا انتخاب اہم ہے، اور اسی لیے میں صدارت کی دوسری مدت کے لیے انتخاب لڑ رہا ہوں‘۔
تجزیہ کارنارمن آرسٹائین کہتے ہیں کہ جب صدر نارتھ کیرولائنا میں کنونشن سے خطاب کریں گے، تو ان کے سامنے مختلف قسم کا چیلنج ہوگا ۔ وہ کہتے ہیں کہ،’آپ یہ بتانا چاہیں گے کہ آپ کمانڈر ان چیف ہیں ۔ آپ ان چیزوں پر زور دینا چاہیں گے جو آپ نے کی ہیں،جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ آپ مضبوط اعصاب اور زبردست قوتِ فیصلہ کے مالک ہیں۔ان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت بھی شامل ہے ‘۔
دونوں پارٹیوں کےکنونشن ختم ہونے کے بعد، صدارتی انتخاب کی مہم اور تیز ہو جائے گی اور دونوں امید وار اپنی توجہ ان اہم ریاستوں پر مرکوز کریں گے جہاں ان دونوں میں برابر کا مقابلہ ہے ۔
انتخابی مہم کا اگلا بڑا متحان 3 اکتوبر کو شروع ہو گا جب دونوں امیدوار مباحثوں کے ایک سلسلے میں شرکت کریں گے جنہیں پورے امریکہ میں ٹیلیویژن پر دکھایا جائے گا۔ کُل تین صدارتی مباحثے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، نائب صدارت کے امیدواروں، ریپبلیکن پال رائن اور موجودہ نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان بھی ایک مباحثہ ہوگا ۔