امریکہ اور پاکستان کے تعلقات خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہیں: رپورٹ

فائل فوٹو

امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر شائع ہونے والی ایک تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق طویل عرصے سے جاری مسائل اور حالیہ چیلنجز کے باوجود ان دو ممالک کے باہمی تعلقات کو کئی شعبوں میں مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنا دونوں ممالک اور خطے کے لیے مفید ہو گا۔

خارجہ امور کے ماہرین کی تصنیف کردہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب صدر جو بائیڈن پاکستان کے ہمسایہ ملک، جنگ سے دوچار افغانستان میں تعینات امریکی فوجوں کی موجودگی کے متعلق اہم فیصلہ کرنے کے سلسلے میں اپنے نیٹو اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔

دوسری طرف امریکہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے تعلقات میں کشیدگی جاری ہے۔ جب کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک اور حریف بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات گہرے ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور پالیسی ساز ادارے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو ماضی کے علاقائی مسائل پر مرکوز تعاون کے مقابلے میں انہیں دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

اس پس منظر میں رپورٹ کے مصنفین کہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعاون پر مبنی تعلقات نہ صرف علاقائی تعلقات اور تنازعات کے حل کے حوالوں سے اہمیت کے حامل ہیں، بلکہ دونوں ممالک کے مفاد اور خطے میں استحکام کے لیے بھی ضروری ہیں۔

"پاک امیریکانا - پاکستان امریکہ تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز" کے عنوان سے چھپنے والی اس رپورٹ میں چیلنجز اور خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ اور پاکستان دونوں ممالک کے اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے ایک فریم ورک کے تحت وسیع البنیاد اور طویل المیعاد تعلقات قائم کریں۔

رپورٹ کے تین لکھاری سید محمد علی، محمد اسد رفیع اور مشرف زیدی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے ٹھوس بنیادوں پر استوار کیے گئے تعلقات نہ صرف پاکستان کو درپیش مسائل کے حل میں مدد گار ثابت ہوں گے بلکہ ان سے امریکہ خطے میں جنگ کے خطرے کو ٹالنے، دہشت گردی پر قابو پانے، خطے میں استحکام کو یقینی بنانے کے اہم اہداف بھی حاصل کر سکتا ہے اور یوں واشنگٹن اس اہم خطے کے عظیم اقتصادی مواقع سے بھرپور استفادہ بھی کر سکتا ہے۔

تعلقات کو مثبت سمت میں استوار کرنے کے ضمن میں ماہرین نے سات مقاصد کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں واشنگٹن اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات کو جغرافیائی سیاست سے، جغرافیائی اقتصادی تعاون کی طرف لے جانا، پاکستان میں انسانی ترقی کو سرمایہ کاری کے ذریعہ بہتر بنانا، افغانستان کے لیے مل کر کام کرنا، دہشت گردی کا مل کر مقابلہ کرنا، امریکہ اور چین میں مقابلے کو تعاون کی طرف لے جانا، امریکہ اور بھارت کے تعلقات سے اس کے اثرات کے حوالے سے نمٹنا، اور قدرتی آفات اور آب و ہوا میں تبدیلی کے معاملات پر تعاون کرنا شامل ہیں۔

اس تحقیق میں ان تمام شعبوں میں تعاون کے فوائد اور عدم تعاون کے نقصانات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ نے اس سارے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں مسائل اور مواقع پر ماہرین سے بات کی۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم "دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ" میں افغانستان اور پاکستان امور کے ڈائریکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن اور استحکام کے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔

SEE ALSO: افغان امن مذاکرات: 'نئی امریکی انتظامیہ یکطرفہ معاہدہ قبول نہیں کرے گی'

وہ کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی شرکت کی حمایت سے امن عمل کو آگے بڑھانے میں مزید اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان کے افغان امن عمل میں تعمیراتی کردار کی بدولت امریکہ میں اسلام آباد کے لیے خیرسگالی میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں یا خانہ جنگی کی صورت اختیار کرتے ہیں تو اس کا منفی اثر امریکہ پاکستان تعلقات پر بھی آئے گا۔

ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ تعلقات اس وقت واشنگٹن کی اہم ترین ترجیحات میں شامل نہیں، امریکہ پاکستان کو 1990 کے عشرے کی طرح ہرگز نظر انداز نہیں کرے گا، کیونکہ امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ، افغانستان کے استحکام اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے جیسے اہم مسائل پر پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے حال ہی میں اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے کئی امور پر بات بھی کی۔

مارون وائن بام

اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وائن بام نے کہا کہ پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکہ کے لیے اہم رکھے اور اس بات میں کوئی مبالغہ بھی نہیں کہ پاکستان خطے میں امریکہ کے چین کے ساتھ تعاون اور ایران کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان اور بھارت میں مسلسل کشیدگی کا باعث مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے، تو وائن بام کہتے ہیں کہ امکان غالب ہے کہ امریکہ اس تنازع پر اپنی موجودہ پالیسی جاری رکھے گا۔

واشنگٹن میں مقیم امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اور خارجہ امور کے ماہر شجاع نواز کہتے ہیں کہ پاکستان کی خطے میں اہمیت تو یقینی طور پر رہے گی لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان خطے میں سٹرٹیجک معاملات کی بجائے اقتصادی تعاون پر زیادہ توجہ دے۔

اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کی تجارت اور کاروباری حلقے اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں "دی بیٹل فار پاکستان اینڈ دی بیٹر یو ایس ریلیشن شپ اینڈ اے ٹف نیبرہوڈ" کے موضوع پر لکھی جانے والی کتاب کے مصنف شجاع نواز نے کہا کہ پاکستان سے ٹیکسٹائل کی امریکہ کو برآمدات کا رجحان یہ ظاہر کرتا ہے کہ تجارت سے دونوں ملکوں میں روابط بڑھ سکتے ہیں اور تعلقات کو وسعت دی جا سکتی ہے۔

اس تناظر میں انہوں ںے کہا کہ پاکستانی کاروباری اور تجارتی رہنماؤں کو حکومت سے الگ آزادانہ طور پر بھرپور طریقے سے کام کرنا چاہیے، کیونکہ حکومت کی بجائے نجی شعبہ ہی تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔

دوسری جانب امریکہ کو پاکستانی برآمدات پر تجارتی نرخ کم کرنا چاہیے تاکہ پاکستان دوسرے ملکوں کی طرح اپنی اشیا امریکی منڈی بھیج سکے۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے لیے دوسرے ملکوں کی طرز پر "جی ایس یی پلس" جیسا ترجیحی تجارتی رسائی پروگرام دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکی کمپنیاں پہلے ہی پاکستان میں فائدہ مند کاروبار کر رہی ہیں اور اب پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ کے سامنے ملک میں مختلف پر کشش شعبوں میں سرمایہ کاری اور سی پیک جیسے منصوبوں میں تعاون کے امکانات کے متعلق آگاہ کرے۔

افغانستان کے بارے میں شجاع نواز کہتے ہیں کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ امن عمل میں پیش رفت نظر نہیں آ رہی، امریکہ وہاں اپنی فوجی موجودگی مئی کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی جاری رکھے گا۔

شجاع نواز

پاکستان کے افغان عمل میں کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نے اس میں معاونت تو کی، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امن مذاکرات میں شرکت طالبان کے اپنے مفاد میں ہے اور پاکستان کا ان پر اثر و رسوخ محدود ہے۔

واشنگٹن تھنک ٹینکس اور حکومتوں کے ساتھ کام کا تجربہ رکھنے والے امور خارجہ کے دو ماہرین ولی نصر اور شمائلہ چودھری نے بھی اپنے ایک تحقیقی مضمون میں اس پہلو پر زور دیا تھا کہ بدلتے ہوئے حالات میں پاک امریکہ تعلقات کو دیرپا بنانے میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی شعبوں میں تعاون کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔