تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ زیادہ تر قانون ساز کرسمس کی چھٹیوں پر چلے گئے ہیں جس کے باعث تعطیلات کے اختتام تک اس منصوبے پر کسی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے ری پبلیکن اسپیکر کو ٹیکسوں اور سرکاری اخراجات میں کٹوتیوں سے متعلق اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے میں اس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ مجوزہ بل پر اپنی ہی پارٹی کے قانون سازوں سے مطلوبہ حمایت حاصل نہ کرسکے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلیکن پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہاہے کہ اب یہ صدر اوباما کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹیکسوں اور بجٹ خسارے سے متعلق طویل عرصے جاری بحران کے حل کو آگے بڑھانے کے لیے سینیٹ کے قائد ہیری ریڈ کے ساتھ مل کرکام کریں۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ یہ بحران امریکی معیشت کو ایک بارپھر کساد بازاری کی جانب دھکیل سکتا ہے۔
ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بونیر نے جمعرات کو دیر گئے ایک بیان جاری کیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں اتنی عددی حمایت حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا منصوبہ منظور کروا سکیں جب کہ دن کے آغاز میں انہوں نے اپنی فتح کا دعویٰ کیاتھا۔
جان بونیر کے منصوبے میں دس لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والے خاندانوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
ایوان نمائندگان میں بونیر کی منصوبے پر ووٹنگ کی حیثیت محض علامتی ہوسکتی تھی کیونکہ ڈیموکریٹک راہنما، جن کا سینیٹ میں غلبہ ہے ، کہہ چکے ہیں کہ ایوان بالا میں اس منصوبے کی کامیابی خارج ازامکان ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ صدر براک اوباما بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ بونیر کے منصوبے کو ویٹو کردیں گے ، چاہے وہ دونوں ایوانوں سے منظور ہی کیوں نہ ہوجائے۔
صدر اوباما چارلاکھ سالانہ تک آمدنی حاصل کرنے والے خاندانوں کو ٹیکسوں میں رعایت دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
سینیٹ کے ڈیموکریٹ ارکان پہلے ہی ایک بل کی منظوری دے چکے ہیں جس میں ڈھائی لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ آمدنی رکھنے والے خاندانوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی۔ ان کا کہناہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسپیکر بونیر بھی ایوان نمائندگان میں اس بل کی حمایت کریں۔
ایوان بالا کے قائد ہیری ریڈ کا کہنا ہے کہ جب تک ری پبلیکن سینیٹ کے منظور کردہ ہمارے بل کو ایوان نمائندگان میں پاس نہیں کرتے، ان کے ساتھ بات چیت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہم ان منصوبوں پر غور کےلیے تیار نہیں ہیں ، جن پر وہ کام کررہےہیں۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ زیادہ تر قانون ساز کرسمس کی چھٹیوں پر چلے گئے ہیں جس کے باعث تعطیلات کے اختتام تک اس منصوبے پر کسی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
دونوں پارٹیوں کے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا تو یکم جنوری سے ملک بھر میں ٹیکسوں میں اضافے اور سرکاری اخراجات میں کٹوتیوں کا ایک خودکار نظام نافذ ہوجائے گا جس کی مجموعی مالیت پانچ کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس اضافی بوجھ کو اقتصادی ماہرین ’مالیاتی چوٹی’ یا ’ فسکل کلف‘ کا نام دے رہے ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلیکن پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہاہے کہ اب یہ صدر اوباما کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹیکسوں اور بجٹ خسارے سے متعلق طویل عرصے جاری بحران کے حل کو آگے بڑھانے کے لیے سینیٹ کے قائد ہیری ریڈ کے ساتھ مل کرکام کریں۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ یہ بحران امریکی معیشت کو ایک بارپھر کساد بازاری کی جانب دھکیل سکتا ہے۔
ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بونیر نے جمعرات کو دیر گئے ایک بیان جاری کیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں اتنی عددی حمایت حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا منصوبہ منظور کروا سکیں جب کہ دن کے آغاز میں انہوں نے اپنی فتح کا دعویٰ کیاتھا۔
جان بونیر کے منصوبے میں دس لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والے خاندانوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
ایوان نمائندگان میں بونیر کی منصوبے پر ووٹنگ کی حیثیت محض علامتی ہوسکتی تھی کیونکہ ڈیموکریٹک راہنما، جن کا سینیٹ میں غلبہ ہے ، کہہ چکے ہیں کہ ایوان بالا میں اس منصوبے کی کامیابی خارج ازامکان ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ صدر براک اوباما بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ بونیر کے منصوبے کو ویٹو کردیں گے ، چاہے وہ دونوں ایوانوں سے منظور ہی کیوں نہ ہوجائے۔
صدر اوباما چارلاکھ سالانہ تک آمدنی حاصل کرنے والے خاندانوں کو ٹیکسوں میں رعایت دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
سینیٹ کے ڈیموکریٹ ارکان پہلے ہی ایک بل کی منظوری دے چکے ہیں جس میں ڈھائی لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ آمدنی رکھنے والے خاندانوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی۔ ان کا کہناہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسپیکر بونیر بھی ایوان نمائندگان میں اس بل کی حمایت کریں۔
ایوان بالا کے قائد ہیری ریڈ کا کہنا ہے کہ جب تک ری پبلیکن سینیٹ کے منظور کردہ ہمارے بل کو ایوان نمائندگان میں پاس نہیں کرتے، ان کے ساتھ بات چیت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہم ان منصوبوں پر غور کےلیے تیار نہیں ہیں ، جن پر وہ کام کررہےہیں۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ زیادہ تر قانون ساز کرسمس کی چھٹیوں پر چلے گئے ہیں جس کے باعث تعطیلات کے اختتام تک اس منصوبے پر کسی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
دونوں پارٹیوں کے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا تو یکم جنوری سے ملک بھر میں ٹیکسوں میں اضافے اور سرکاری اخراجات میں کٹوتیوں کا ایک خودکار نظام نافذ ہوجائے گا جس کی مجموعی مالیت پانچ کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس اضافی بوجھ کو اقتصادی ماہرین ’مالیاتی چوٹی’ یا ’ فسکل کلف‘ کا نام دے رہے ہیں۔