امریکہ کے صدر جو بائیڈن بدھ کو اسرائیل کا دورہ کریں گے جسکا اعلان امریکی وزیرِ خارجہ نے تل ابیب میں کیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے دورۂ مشرقِ وسطیٰ کے موقع پر اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے طویل ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے بتایا کہ صدر بائیڈن اسرائیل کا دورہ کریں گے جو خطے میں اس نازک موقع پر ہو گا۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بھی صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ صدر جو بائیڈن بدھ کو اسرائیل کے شہر تل ابیب جائیں گے جب کہ اسی روز وہ اردن کے دارالحکومت عمان کا دورہ بھی کریں گے۔
اس دورے کے حوالے سے جان کربی کا مزید کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کی اردن کے بادشاہ عبد اللہ، مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات ہو گی۔
ان ملاقاتوں کے حوالے سے وائٹ ہاؤس نے بتایا ہے کہ صدر بائیڈن ایک بار پھر اپنا مؤقف دہرائیں گے کہ حماس کے اقدامات فلسطینی عوام کے وقار اور خود ارادیت کے لیے نہیں ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق ان ملاقاتوں میں غزہ کے عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے کا معاملہ بھی زیرِ بحث آئے گا۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی شروع ہوئے 10 روز ہو چکے ہیں ، لیکن ابھی تک حماس کی اسرائیل کی جانب راکٹ فائر کرنے کی صلاحیت برقرار ہے۔ اور اسرائیلی علاقے سے اب بھی خطرے کے سائرن سنائی دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سفارتی کوششوں کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن خطےکے دورے پر ہیں اور پانچ دنوں میں وہ اب دوسری بار اسرائیل پہنچے ہیں۔
اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ ان کی اسرائیلی وزیرِ اعظم سے ساڑھے سات گھنٹوں تک ملاقات جاری رہی جس میں غزہ کے عوام تک انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے۔
میڈیا کے لیے جاری ایک مختصر بیان میں اینٹنی بلنکن نے بتایا کہ امریکہ اور اسرائیل نے اتفاق کیا ہے کہ غزہ کے عام شہریوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے کے لیے منصوبہ بنایا جائےجس کے تحت مختلف اقوام سے آنے والی امداد اور امدادی تنظیموں کو غزہ تک رسائی حاصل ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ ایسے علاقے مقرر کیے جائیں گے جہاں عام شہریوں کو تحفظ حاصل ہو۔
اینٹنی بلنکن کے بقول غزہ میں جلد سے جلد امداد پہنچانے کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے کیوں کہ خدشات موجود ہیں کہ حماس کے جنگجو امدادی سامان پر قبضہ کر سکتے یا ان کی تقسیم میں رکاوٹیں حائل کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس میں حالیہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب غزہ کی عسکری تنظیم حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک اور غیر متوقع حملہ کیا۔ زمین، فضا اور بحری راستوں سے بیک وقت کیے گئے حملے میں 1400 اسرائیلی مارے گئے جن میں فوجیوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔
یہ بھی جانیے
اسرائیل غزہ پر ایک بار پھر قابض ہوتا ہے تو یہ غلطی ہو گی: امریکی صدرمغرب کے دباؤ پر حماس کی مذمت نہیں کرسکتے: ملائیشیا اسرائیل کے خلاف 'جہاد' کا خواہش مند کراچی پولیس کا افسر عہدے سے فارغاسرائیل حماس جنگ؛ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی طیارہ بردار بحری بیڑوں کی اہمیت کیا ہے؟حماس کے اس حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کر دی تھی جو اب بھی جاری ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
غزہ پر بمباری میں لگ بھگ 2900 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زائد بچے اور خواتین ہیں۔
اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے اور کسی بھی قسم کی امداد کو وہاں جانے نہیں دیا جا رہا جس کے سبب اسپتالوں میں ادویات ختم ہو چکی ہیں جب کہ پانی اور خوراک بھی ختم ہو چکی ہے۔
اسرائیل نے غزہ کی آدھی آبادی کو اپنے گھر خالی کرکے دوسرے مقامات پر منتقل ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس حکم کی وجہ اسرائیلی فورسز کی غزہ میں ممکنہ زمینی کارروائی کو قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کے اندر 10 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔