جمعے کو امریکہ کے تقریباً تمام بڑےاخبارات نے جمعرات کے روز کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے ملازمتوں کی فراہمی پر صدر براک اوباما کے خطاب کو اپنے اداریوں کا موضوع بنایا ہے۔
اخبار ’لاس اینجلس ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ بہت دِنوں سے صدر اوبامہ کے متوقع خطاب میں ایک صفحہ تو اُس ٹیکس پیکج سے اُدھار لیا گیا ہے جو انہوں نےگذشتہ دسمبر میں ریپبلکن جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ طے کیا تھا۔اور وہ ترغیبی اخراجات جو صدر اوباما حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے انہوں نے ری پبلکن جماعت کو ٹیکسوں میں وہ چھوٹ دینے کی تجویز دی ہے جس کی ری پبلکن ارکان ماضی میں حمایت کرتے رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کہ وہ خسارے کو بڑھنے نہیں دیں گے۔
اُن کا447ارب ڈالر کا منصوبہ کوئی اتنا انوکھا نہیں ہے۔ اس میں جانی پہچانی ٹیکسوں کی چھوٹ ہے، انفراسٹرکچر کے منصوبےاور ریاستی اور مقامی حکومتوں کے لئے گرانٹس شامل ہیں۔ اس منصوبے کی تفصیلات اتنی اہم نہیں ہیں جتنا یہ کہ قانونسازوں کا اس کے حوالے سے کیا رد عمل ہے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ واشنگٹن میں قرضے کی حد میں اضافے پردھڑے بندی کی بازیگری سے عوام کا پہلے سے متزلزل اعتماد مزید کمزور ہو گیا ہے۔ اور تمام دھڑوں کا ملازمتوں کی فراہمی کے بارے میں اس منصوبے پر متفق ہونے سے اس نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے۔ صدر اورموجودہ بحران سیاسی تاریخ کے اعتبار سے ایک نادر لمحہ ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ صدر کے منصوبے نے بات چیت کے آغاز کے لئے ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے۔ اب یہ قانون سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر اپنا اپنا نقطہ نظر واضح کریں ، اور فوری طور پر ایسا کریں۔
اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ جمعرات کی شب صدر اوباما کا خطاب کسی طور بھی توقعات کے مطابق نہیں ہو سکتا تھا۔ ایسا کوئی جادوئی طریقہ موجود نہیں ہے جس سے پلک جھپکتے ہی ملازمتوں کی فراہمی ممکن ہو سکے، یا غیر معمولی بیروزگاری سے منسلک مسائل اوربیروزگاری کی ناقابل قبول عمومی سطح اور انجماد کا شکار معیشت کو رفع کیا جاسکے۔ کھربوں ڈالر ترغیبات کا دور گزر چکا ہے۔ درحقیقت، ترغیب پر منحصر منصوبے کی معقولیت کا جائزہ ، بڑھتے ہوئے قرضوں کے ساتھ ساتھ اس تشویش کے ساتھ لگانا چاہئیے کہ کیا رہنما اس کو درست کرنے کے لئے سیاسی عزم رکھتے ہیں۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ تاہم معیشت کی بری حالت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کو مزید خراب نہ کیا جائے اور صدر کے پیش کردہ منصوبے کی سمت کچھ نہ کچھاقدامات اٹھائے جائیں۔
اخبارکے مطابق صدر اوباما کے منصوبے کو جس شکل میں وہ پیش کیا گیا ہے اس صورت میں منظور ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ تاہم اگر اس کے ساتھ ساتھ آئندہ ہفتے قرضوں میں کمی کا کوئی سنجیدہ خاکہ پیش کیا جائے، جس کا وعدہ بھی کیا گیا ہے تو پھر یہ منصوبہ ری پبلکن ارکان کے مطالبات کے عین مطابق ہے۔ تاہم اس منصوبے نے سردیوں کے لئے ایک اہم بحث مباحثے کے لئے فضا تیار کر دی ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہی موضوع آئندہ مہینوں میں انتخابی مہم کا حصہ بھی ہو۔
اخبار’نیو یارک ٹائمز‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ایسے میں جب چودہ ملین سے زیادہ ا مریکی بے روزگار ہیں اور انہیں اقتصادی بدحالی کے دوبارہ آنے کا خدشہ ہے ، جمعرات کی شب صدر اوباما اس کانگریس کے رو برو کھڑے تھے جس نے مدد کے لئے کبھی انگلی تک نہیں ہلائی۔ کچھ ری پبلکن ارکان نے تو اُن کا خطاب سننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ تاہم، جن امریکیوں نے ان کے خطاب کو سنا تو ان کے سامنے ایک اچھے منصوبے کا انکشاف ہوا جو توقعات سے زیادہ مضبوط اور دیرپا اثرات کا حامل ہے۔ اور شاید یہ معیشت کی بحالی کی جانب اٹھنے والا یہ ایک پہلا قدم ہے۔
اخبار آگے چل کر کہتا ہے کہ حالانکہ اس منصوبے کے اخراجات خسارے میں مزید کمی سے پورے کئے جائیں گے، تاہم انہوں نے اس کی اہم تفصیلات کو کسی دوسرے وقت تک موخر کر دیا ہے۔ رئیس افراد اور بڑی کمپنیوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز خوش آئند ہے لیکن میڈی کئیر اور میڈی کیڈ میں کٹوتیوں کے حوالے سے ان کا انتباہ ، ان بہت سے کمزور اور ناتواں افراد کے لئے جن کی زندگی کی ڈور اِن سے جڑی ہے، اِس تشویش میں اضافہ کرتا ہے کہ وہ کہیں ایک اہم پرگرام کو دوسرے اہم پرگرام کی خاطر ختم نہ کر دیں۔
’نیو یارک ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ صدر اوباما اپنے وعدے کے مطابق اپنے منصوبے کو ملک بھر میں عام کریں، کیونکہ اِس وقت فوری عمل کی ضرورت ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: