اخبار ’لاس انجلیس ٹائمز‘ کے ادارتی صفحے پر ’نیشنل ایرانین امریکن کونسل ‘کی صدرTrita Parsiکا ایک مضمون چھپا ہے جِس میں وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ دنیا ایران کے سخت لہجے کی عادی ہو چکی ہے، مگر پھر بھی گذشتہ ہفتے ایرانی ایڈمرل حبیب اللہ سیاری کا یہ کہنا کہ ایرانی بحریہ کو امریکی ساحل کے قریب تعینات کیا جائے، خود ایرانی معیارات سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔
پارسی کہتی ہیں کہ پینٹگان جانتا ہے کہ ایرانی بحری جہاز جلد ہی امریکی ساحلوں کے قریب نہیں آجائیں گے، اور جیسا کہ وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جے کارنی نے کہا، ہم اِن بیانات کو سنجید ہ نہیں سمجھتے، کیونکہ یہ ایران کی بحری صلاحیت کی عکاسی نہیں کرتے۔
تاہم، مصنفہ کہتی ہیں کہ ایسے بیانات ایرانی لیڈروں کے جوشِ خطابت میں بے اعتدالی کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ اسلامی جمہوریہ خطے میں اُن شہری بغاوتوں کا بھی اندازہ لگانے سے قاصر ہے جو بعض اسلامی ممالک کو ہِلا کر رکھے ہوئے ہے۔
ساتھ ہی، یہ بیانات ہمیں یہ توجہ دلاتے ہیں کہ صدر اوباما کے دورہٴ اقتدار کے تین برس پورے ہونے کو ہیں اور امریکہ اور ایران تنازعے کے خطرناک حد تک قریب ہیں۔
پارسی کہتی ہیں امریکہ کے سبک دوش ہونے والے چیرمین آف دِی جوائنٹ چیفز آف اسٹاف مائیک ملن نے ایران اور امریکہ کے درمیان رابطوں اور افہام و تفہیم نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم چونکہ ایران کے ساتھ بات چیت نہیں کر رہے، اِس لیے ایک دوسرے کو سمجھتے بھی نہیں، اور اگر کچھ ہوگیا تو ہم اُسے سمجھ نہیں پائیں گے۔
ملن کا کہنا تھا کہ باہم رابطے نہ ہونے سے غلط اندازوں کے بیج بو دیے گئے ہیں اور غلط اندازے اکثر خطرناک شدتوں کو جنم دیتے ہیں۔
اخبار ’ڈیٹرائٹ نیوز‘ میںFroma Harrop نے صدر اوباما کے اِس منصوبے پر قلم اٹھایا ہے جسے Jobs Planیا ملازمتوں کا منصوبہ کہا جارہا ہے۔
ہیراپ کہتی ہیں کہ اگرچہ صدر اوباما کا خسارہ کم کرنے کا منصوبہ نقائص سے مکمل طور پر پاک نہیں مگر مالی اور سیاسی ذہانت کی عکاسی کرتا ہے۔
صدر نے کہا ہے کہ تقریباً ایک تہائی رقم ٹیکسوں میں اضافہ اور باقی اخراجات میں کمی سے آئے گی اور یہ کمی جنگی اخراجات اور مراعات پر خرچ ہونے والی رقم میں کی جائے گی جِس سے وفاقی خسارہ دس سال میں 30کھرب ڈالر کم ہوجائے گا۔
مگر مصنفہ کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوگی، کیونکہ ریپبلیکن ابھی اِسے طبقاتی جنگ قرار دے رہے ہیں۔
ایوانِ مائندگان میں بجٹ کمیٹی کے چیرمین وِنکانسن کے ریپبلیکن رکن ِ کانگریس پال ریان کا کہنا ہے کہ اگرآپ ملازمتیں دینے والوں پر ٹیکس لگائیں گے تو ملازمتیں پیدا نہیں ہوں گی۔
مصنفہ کہتی ہیں کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ری پبلیکنز دولت مند امریکیوں کو مجبور بھی نہیں کر رہے کہ وہ لوگوں کو ملازت دیں، بلکہ امریکہ کے کچھ امیر ترین صنعت کار تو امریکہ میں اپنی فیکٹریاں بند کرکے چین منتقل کر رہے ہیں۔ چناچہ، فروما ہیراپ
کہتی ہیں، ٹیکسوں میں چھوٹ اُن امریکیوں کے لیے ہونی چاہیئے جو امریکیوں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کریں، نہ کہ اُن کے لیے جنھوں نے دولت وراثت میں پائی اور خود ایک روز بھی کام نہیں کیا۔
اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ نے اپنے اداریے میں اسرائیل کے لیے اوبامہ انتظامیہ کے تنبیھی بیانات کو موضوع بنایا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ریاست تسلیم کیے جانے کی درخواست کے بعد گذشتہ ہفتے دوسرا موقعہ تھا کہ ٹیم اوباما نے اسرائیل کو مذاکرات کا عمل متاثر کرنے کے اقدامات کا موردِ الزام ٹھہرایا۔
اخبار لکھتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جے کارنی نے یروشلم کے اُس حصے میں اسرائیلی تعمیرات پر جو اسرائیل کی 1967ء کی سرحدوں سے باہر ہے، سخت مایوسی کا اظہار کیا، اور وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے اُسے غیر مفید قرار دیا۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو کا مؤقف ہے کہ اسرائیل پہلے ہی دس ماہ تک تعمیرات بند رکھ چکا ہے۔ مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔
اخبار لکھتا ہے نئی فلسطینی ریاست کو رکن بنانے کی درخواست پر سلامتی کونسل کی کمیٹی نے غور شروع کر دیا ہے اور جمعے کے روز اُس کا پہلا اجلاس ہو بھی چکا ہے۔
اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ اپنے اداریے میں خیال ظاہر کرتا ہے کہ فلسطینی اپنی ریاست تو چاہتے ہیں مگر وہ اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں کرتے۔ حالانکہ، صدر اوباما اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں دونوں فریقوں کو اخلاقی طور پر برابر قرار دے چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: