’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہےلگ بھگ ایک ماہ کےاندرفلسطینی اقوام متحدہ سےدرخواست کرنے والے ہیں کہ اُن کی مملکت کو تسلیم کیا جائے۔
اخبار نے اُن کی امنگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالہا سال سے اُنھیں مذاکرات کے ذریعے ایک حل کا یقین دلایا جاتا رہا ہے لیکن وہ ابھی خالی ہاتھ بیٹھے ہیں، حالانکہ صدر اوباما نے ستمبر کے ماہ تک ایک امن معاہدہ کرنے کی اپیل کی تھی، اور اِس کے نتائج تمام فریقوں کے لیے بہت تباہ کُن ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے فلسطینیوں کو سلامتی کونسل کی تائید حاصل کرنی پڑے گی اور اُس میں شبہ نہیں کہ اِس نوع کی کسی بھی قرارداد کو امریکہ ویٹو کردے گا جِس کے نتیجے میں اسرائیل اور واشنگٹن باقی ماندہ دنیا سے مزید کٹ جائیں گے۔
چناچہ، ہوسکتا ہے کہ فلسطینی جنرل اسمبلی سے درخواست کریں کہ وہ یا تو انھیں مملکت کے طور پر تسلیم کرے یا پھر اُنھیں مبصر مملکت کا درجہ دیا جائے۔ دونوں باتیں منظور ہوسکتی ہیں۔
لیکن اخبار کہتا ہے کہ یہ حیثیت گو برائے نام ہی ہوگی اور ابتدا میں فلسطینی کتنا بھی جوش و جذبہ کیوں نہ دکھائیں ہوگا آخر میں یہ کہ انتہا پسند اُن کی بد دلی سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
لہٰذا، اخبار کی نظر میں اِس مایوسی کو ختم کرنے کا واحد طریقہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین سنجیدہ مذاکرات شروع کرنا ہے۔
دوسال سے دونوں فریق کبھی ایک کمرے میں جمع نہیں ہوئے۔ اخبار کی نظر میں اس تعطل کی ذمہ داری تمام فریقوں پر آتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ستمبر کی حتمی تاریخ قریب آنے کے ساتھ ساتھ اوباما انتظامیہ اسرائیل، یورپی اتحاد، روس اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ مذاکرات کی جزیات طے کرنے میں مصروف ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی مملکت کو پہلے تسلیم کرانے سے باز رکھنے کےلیے امریکہ اور اُس کے شرکائے کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ حتمی مذاکرات اور فلسطینیوں کی ریاست کو اقوام متحدہ میں ووٹ کرکے قائم کرنے کوئی حتمی تاریخ میز پر رکھیں۔
’یو ایس اے ٹوڈے‘ شام کی بغاوت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا لگ رہا ہے کہ صدر بشار الاسد شاید یہ ثابت کریں گے کہ وہ اپنے بدنامِ جہاں والد حافظ الاسد کو بھی انسان کشی کے میدان میں پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
حافظ الاسد کے بارے میں یہی مشہور تھا کہ اُنھوں نے حاما کے شہر میں عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے10000 سے 25000افراد کو بے دردی سے ہلاک کردیا تھا اور اب اُنہی کا بیٹا جو مغرب کا تعلیم یافتہ ہے، اور جس سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اعتدال سے کام کے گا، ثابت کر رہا ہے کہ وہ بھی اتنا ہی بے رحم ہے۔
پانچ ماہ قبل جب اسد حکومت کے خلاف پُر امن بغاوت شروع ہوئی تھی تو اُس وقت سے وہاں 1700شہریوں کو ہلاک کردیا گیا ہے اور شامی ٹینک حاما اور دوسرے شہروں میں اُسی طرح استعمال ہوئے جیسے اُن کے والد کے دور میں ہوا تھا۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ اپنے والد کی مثال پورے طور پر دہرائیں گے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ بربریت بڑھتی چلی جارہی ہے اور اوباما انتظامیہ کی یہ امید روز بروز خوش فہمی لگ رہی ہےکہ اسد شاید اِس بحران سے نکلنے کے لیے مذاکرات کی راہ اختیار کریں گے۔
دنیائےعرب میں جمہوری تحریک سےجو جوش و جذبہ پیدا ہوا تھا اُس سے قطع نظر یاد رکھنے والی اہم بات یہ ہے کہ اسد جیسےآمروں کا آخری وقت قریب آنے تک ابھی کئی اور بہاریں گزریں گی اور اگر امریکہ وہ وقت لانے میں کچھ کرسکتا ہے تو اُسے کرنا چاہیئے۔ لیکن، خیال رہے کہ آگے کیا ہوگا۔ کیونکہ، عراق اور لبنان سے جوسبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جو چیز پہلے آسان لگتی ہے وہ اتنی آسان نہیں ہوتی۔
اخبار ’سینٹ لوئی ڈسپیچ‘ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں جاری بحث میں کہتا ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران سوال یہ رہا ہے کہ آیا عالمی حرارت کو کم کرنے کے لیے ایسی پالیساں اختیار کی جائیں جِن سے کاربن کے اخراج میں کمی آئے۔
اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر امریکہ اور دوسرے ملکوں میں توانائی کی پالیسیاں بدلنے سے توانائی پر آنے والی لاگت میں بہت اضافہ ہوجائےگا۔
اور اِس سال جو غیر معمولی گرمی پڑی ہے اُس پر اخبار کہتا ہے کہ یہ تعین کرنے میں شاید دس سال لگیں گے کہ آیا اس میں موسمیاتی تبدیلی کا بھی دخل تھا یا نہیں۔ اگر اِس کے صحیح ہونے کا امکان ہے تو ہمیں آج ہی یہ سوال اٹھانا چاہیئے تاکہ اگلی نسل کل اِس کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہو۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: