اگر آپ امریکہ کے مستقبل کی کوئی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ ایک نظر اٹلی پر ڈال لیں ۔ یہ ہے اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ کے ایک اداریے کا موضوع، جِس میں اخبار اٹلی کے موجودہ مالیاتی بحران کا موازنہ امریکہ میں جاری مالیاتی بحران سےکرتے ہوئےلکھتا ہے کہ اگرواشنگٹن نے اپنےموجودہ حالات تیزی سے تبدیل نہ کیے تو ایک دن یہاں بھی اٹلی جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں ۔
اخبارلکھتا ہے کہ اس وقت اٹلی کے قانون سازملک کو قرض کے بحران سے نکالنے اور سرمایہ کاروں پر اپنی ساکھ بہترکرنے کے لیےکفایت شعاری کے ہنگامی اقدامات کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم، اخبار لکھتا ہے کہ اگر اٹلی کسی نہ کسی طرح سرمایہ کاروں کو یہ یقین دلابھی دے کہ وہ اپنے واجبات ادا کر سکتا ہے تو بھی اس کے موجودہ حالات کےپیش نظرکوئی ملک یا بین الاقوامی ادارہ اسے آسان شرح ِسود پر مزید قرض دینے کے لیے آسانی سے تیار نہ ہوگا۔
اخبار لکھتا ہےکہ زیادہ شرحِ سود پرقرض لینے سے اس کا بجٹ متاثر ہوگا جب کہ کفایت شعاری کے اقدامات سے محصولات میں اضافے کے لیےدرکار ترقی متاثر ہوگی، جس کے نتیجےمیں اس سے قرض واپس لینا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ کچھ ایسے ہی مستقبل کا سامنا امریکہ کو بھی ہو سکتا ہے۔
اخبار لکھتا ہےکہ اس وقت اٹلی پر قرضوں کا بوجھ اس کی مجموعی قومی پیداوار کا 120 فیصد کے مساوی ہے اور امریکہ پر بھی قرضوں کا بوجھ اس سے کچھ کم نہیں ہے۔ اور اگرچہ امریکہ کے قرض لینے کی ساکھ ابھی تک خاصی مضبوط ہے لیکن کب تک ؟ کیا سرمایہ کار اسے صرف اسی بنیاد پر قرض دیتے رہیں گے کہ وہ اپنے واجبات کی کسی نہ کسی طرح ادائگی کرتا رہے گا۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر کانگریس اپنی تمام تر تدابیر اختیار کر کے کوئی معجزاتی کارکردگی دکھا دے تو بھی ملک کو اگلے دس سال میں تیرہ کھرب ڈالر کی بجائے دس کھرب ڈالر کا قرض ادا کرنا ہو گا، جس کے بعد امریکہ کےحالات تیزی سے مزید خراب ہوں گے۔ اوراخبار کے نزدیک امریکہ کا طویل المیعاد مستقبل اٹلی سے کچھ زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتا ۔ تاہم، اخبار لکھتا ہے کہ اچھی خبر یہ ہے کہ واشنگٹن کے پاس اٹلی کی نسبت اتنا وقت ہے کہ وہ اپنے مالیاتی بحران سے بچنے کے لیے کچھ کر سکے۔
اور، بحران کا ایک سلسلہ اس وقت عرب دنیا میں بھی جاری ہے جہاں گزشتہ آٹھ ماہ سے’عرب اسپرنگ ‘نامی تحریکوں کے نتیجے میں عرب مطلق العنان حکمران مرضی سے یا نہ چاہتے ہوئے اقتدار سے الگ ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں، لیکن جہاں اقتدار کی منتقلی کا ایک اور طویل بحران شروع ہو چکا ہے۔
اخبار’ لاس اینجلس ٹائمز‘ نے Arab Spring, American Winter کےعنوان سے اُن عرب تحریکوں کے اثرات پراپنے ایک اداریے میں اس عام خیال سے اتفاق کیا ہے کہ یہ ایک طویل سلسلہ ہو گا لیکن اس کا انجام آخر ِکار اچھا ہو گا اور خاص طور پر عربوں کے لیے یہ تحریک اچھا ثمر لائے گی ۔
اخبارلکھتا ہے کہ عرب اسپرنگ کی بدولت عرب دنیا میں اب عوام اپنے مستقبل کے فیصلے خود اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کررہے ہیں اور انہیں آخر کار اپنی تقدیر خود رقم کرنے کا حق دیا جائے گا اور دیا جانا چاہیئے۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کے لیے یہ سب کچھ ممکن ہے کوئی اچھا تجربہ نہ ہو ا ور اس کی توجیہ میں اخبار لکھتا ہے کہ زیادہ تر عرب مطلق العنان حکمران امریکہ کےمفادات پورے کرتے تھے، جب کہ عرب اسپرنگ کے بعد اس خطے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک امریکی پالیسیوں کی مخالفت کی جارہی ہے اور اس میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
اخبار لکھتا ہے کہ ہمیں چاہیئے تھا کہ بیرونی مسائل میں الجھنے کی بجائے ہم اپنا وقت اور اپنے وسائل خود اپنے ملک کے مسائل کے حل پر صرف کرتے جوہم نہیں کر سکے اورافسوس کہ نہیں کر سکتے۔ اوراخبار لکھتا ہے کہ یہ ہی آج کے امریکہ کا اصل مسئلہ ہے کہ وہ ایک ایسے خطے میں پھنس چکا ہے جہاں اس کے دوست کم ہو گئے ہیں اور جس کے ساتھ نہ تو وہ چل سکتا ہے نہ ہی اسے چھوڑ سکتا ہے۔ اور اخبار لکھتا ہے کہ دنیائےعرب میں آنے والا موسم بہار امریکہ کے لیے موسم سرما ثابت ہو رہا ہے۔
اور، اب تذکرہ اُس موسم بہار کا جو جدید ٹکنالوجی کی بدولت بھارت میں غریب ترین شخص کی زندگی میں آنے کو ہے۔گزشتہ سال بھارتی حکومت نے ملک میں تعلیم کے فروغ اور غربت کے خاتمے میں مدد کے لیے ٹکنالوجی کے ماہرین کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ کیا وہ کوئی ایسا کمپیوٹر بنا سکتے ہیں جس سے بھارت کا غریب ترین شخص بھی حکومت کی معمولی مالی مدد کے ساتھ استفادہ کر سکے۔ اور راجستھان کے نئے انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی نےاس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے صرف ایک سال میں ایسا لیپ ٹاپ متعارف کرا دیا ۔گزشتہ ماہ سامنے آنے والے ’ آکاش‘ نامی سات انچ ٹچ اسکرین کے اس آئی پیڈ کی بیٹری تین گھنٹے تک کام کرسکتی ہے اور اس کی مددسے یو ٹیوب کی ویڈیوز ، پی ڈی ایفس اور ورچوئل لیبز جیسے سوفٹ وئیر ڈاؤن لوڈ ہو سکیں گے۔ اور وائرلیس کنکشن کے لیے حکومت کی مدد کی بدولت اس سے غریب ترین طالبعلم تک استفادہ کر سکے گا۔
اخبار’ نیو یارک ٹائمز‘ نے اپنے ایک اداریے میں انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ ا س آئی پیڈ کو تیار کرنے کے لیے اس نے آج کی انتہائی منسلک دنیا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی پیڈ کے زیادہ تر پرزے چین اور جنوبی کوریا سے خریدے جب کہ اوپن سورس سافٹ وئیر کے ساتھ ساتھ مغرب کی دو جب کہ بھارت کی ایک کمپنی کی مدد حاصل کی ۔
اخبار لکھتا ہےکہ سوشل میڈیا ، موبائل ، وائرلیس مصنوعات اور تیز تر کمپیوٹنگ کی بدولت ، سستی اختراعات اور مشینیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک نئے نئے انداز سے پہنچ رہی ہیں اور ہر کارکن اور ہر کمپنی کےلیے ایک نیا موقع اور نیا چیلنج سامنے آرہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مصنوعات زیادہ سے زیادہ سستی اور زیادہ سے زیادہ اچھی شکل اور انداز میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکے ۔ اور بھارت جیسے ملک کے لیے یہ چیلنج بھی سامنے آرہا ہے کہ اسے بیرونی دنیا کی طرف سے کسی مدد کی توقع کی بجائےاپنے مسائل اپنے معاشی اور زمینی حالات کے تحت خود ہی حل کرنے ہوں گے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ آکاش آئی پیڈ بھارت کے لیے امید کی یہ کرن لے کر آیا ہے کہ وہ اپنی ٹکنالوجی کی مدد سے اپنے220 ملین غریب طالبعلموں کو ، ناقص تعلیمی حالات اور غریب ترین آدمی کو غربت سے نکال سکتا ہے ۔ تاہم، اخبار لکھتا ہے کہ یہ صورتحال مغرب کے لیے ایک چیلنج بھی ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: