اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں 'عرب اسپرنگ' کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا ہے جس کے دوران معتدل خیالات رکھنے والے انتہا پسندوں کے مدِ مقابل ہیں۔
اخبار نے اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ عرب ممالک میں گزشتہ برس شروع ہونے والے سیاسی جدوجہد کا مقصد سیکولر آمر حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا تھا۔ اخبار لکھتا ہے کہ اب ان ملکوں کے عوام اپنی جدوجہد کے نتیجے میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے ثمرات غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے ایک بار پھر جدوجہد پر آمادہ ہیں۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' کے مطابق 'عرب اسپرنگ' کا آغاز تیونس سے ہوا تھا اور اب اس تحریک کا دوسرا مرحلہ بھی تیونس ہی سے شروع ہوا ہے جہاں برسرِ اقتدار معتدل اسلامی جماعت 'النہضہ' اور سخت گیر اسلامی گروپ 'سلفی' ایک دوسرے کے مقابل آگئے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ عرب ممالک میں سرگرم 'سلفی' اور ان جیسے دیگر گروپ سخت گیر نظریات کے حامل ہیں اور شخصی آزادیوں اور کثیر المذاہب معاشروں کو مغربی تصورات قرار دیتے ہوئے ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ تیونس میں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے درمیان جاری کشمکش معتدل نظریات کی حامل برسرِ اقتدار اسلامی جماعت 'النہضہ' کے لیے ایک چیلنج ہے جو سمجھتی ہے کہ جمہوریت اور اسلام ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ 'القاعدہ' رہنما ایمن الزواہری نے یہ بیان جاری کرکے تیونس کی سیاسی کشمکش کو مزید بڑھاوا دینے کی کوشش کی ہے کہ 'النہضہ' نے اسلام کو دھوکا دیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ تیونس میں معتدل اسلامی نظریات کی حامل اور سیکولر جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد تمام عرب ممالک کے لیے ایک مثال اور امید کی کرن ہے اور اسے اس داخلی سیاسی بحران میں اپنا کرداربہت سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ ایک وقت تھا جب عرب ممالک پہ برسرِ اقتدار سیکولر آمر اسلام پسندوں سے خائف تھے اور اب ایک یہ وقت ہے جب اسلام پسند اپنے معاشروں میں لادین جمہوریت کے پنپنے سے خوف زدہ ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ تیونس کا حکمران اتحاد عرب دنیا میں پائے جانے والے اس بے بنیاد خوف کو ختم کرنے اور یہ واضح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اسلام پسند اور سیکولر مل کر ملک کا انتظام چلاسکتے ہیں۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ عرب ممالک کو آمر حکمرانوں سے نجات دلانے کی تحریک بھی تیونس ہی سے اٹھی تھی جسے 'عرب اسپرنگ' کا نام دیا گیا تھا۔ اب اس 'اسپرنگ' کا یہ دوسرا مرحلہ بھی تیونس ہی سے شروع ہوا ہے اور امید ہے کہ دیگر عرب ممالک بھی اس مرحلے میں تیونس کی تقلید کریں گے۔
اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے اپنے ایک اداریے میں امریکی جیلوں میں مجرموں کو قیدِ تنہائی میں رکھنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو موضوع بنایا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بیشتر ریاستوں کی جیلوں میں قیدیوں کو تنہا رکھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جس کا مقصد جیلوں میں پرتشدد واقعات کو روکنا اور نظم و ضبط قائم کرنا ہے۔
اخبار کے مطابق اس وقت بھی امریکی جیلوں میں 25 ہزار قیدی قیدِ تنہائی کاٹ رہے ہیں جب کہ مزید کئی ہزار قیدیوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' کے مطابق قیدِ تنہائی کاٹنے والے مجرم چند ہی روز میں 'ڈپریشن' یعنی ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی یہ قید طویل عرصے تک جاری رہے تو انہیں کئی طرح کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق مجرموں کو سزا دینے کے لیے طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھنا ہرگز جائز نہیں اور یہ ایک ظالمانہ اور غیر انسانی طریقہ ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ امریکی جیلوں میں یہ مشق عام ہے کہ متشدد اورخطرناک قیدیوں کو تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن اخبار کے مطابق یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ تنہا رہنے سے ان قیدیوں کے کوئی اصلاح نہیں ہوپاتی اور ان میں اور زیادہ متشدد جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ 30 برسوں سے امریکی جیلوں میں جاری اس رجحان کے غلط ہونے کا احساس اب عام ہورہا ہے اور کئی امریکی ریاستوں میں قیدیوں کو تنہائی میں رکھنے کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ اس روایت کے خاتمے سےنہ صرف جیلوں پر اٹھنے والے اخراجات کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ قیدیوں کی اصلاح کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: