'نیو یارک ٹائمز' نے ایران کے جوہری تنازع کے حل کے لیے گزشتہ ہفتے ماسکو میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات میں کوئی حقیقی پیش رفت نہ ہونے پر تاسف ظاہر کیا ہے۔
اپنے ایک اداریے میں اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ تین ماہ میں مذاکرات کا یہ تیسرا دور تھا جس میں ایران کے علاوہ امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے نمائندے شریک تھے۔
'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ گو کہ مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے لیکن یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھیں۔
اخبار نے امید ظاہر کی ہے کہ ایران کے خلاف یکم جولائی سے نافذ ہونے والی نئی پابندیوں کے بعد ایرانی حکومت پر عالمی برادری کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں ان مذاکرات کی اہمیت دوچند ہوجائے گی۔
نئی پابندیوں کے تحت امریکہ ان تمام غیر ملکی بینکوں پر اپنی منڈیوں کے دروازے بند کرسکے گا جو تیل کی تجارت کے سلسلے میں ایران کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یکم جولائی سے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک کے لیے ایران سے تیل درآمد کرنے پر پابندی بھی موثر ہوجائے گی۔
'نیویارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ تاحال یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا سفارت کاری اور اقتصادی پابندیوں کے ملغوبے پہ مشتمل اس مغربی حکمتِ عملی کے نتیجے میں ایران کو اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے پر آمادہ کیا جاسکے گا یا نہیں، لیکن اخبار کے مطابق یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس مسئلے کا کوئی فوری فوجی حل موجود نہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر فوجی حملے کی صورت میں ایرانی ایٹمی پروگرام کو تو شاید کوئی خاطر خواہ نقصان نہ پہنچے لیکن ایرانی حکومت کے لیے اندرون و بیرونِ ملک ہمدردی میں اضافہ ہوجائے گا۔
'نیو یارک ٹائمز' نے لکھا ہے کہ کئی برسوں میں پہلی بار ایران کے ساتھ مغربی طاقتوں نے سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے اور ضرورت ہے کہ مذاکراتی عمل کو مزید وقت دیا جائے۔
اس سال یکم جولائی کو 'انٹرنیشل کریمنل کورٹ' کے قیام کو 10 برس مکمل ہوجائیں گے۔ دی ہیگ میں واقع یہ عدالت انسانیت کے خلاف جرائم، جارحیت، جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے واقعات میں ملوث افراد کےخلاف کاروائی کرتی ہے۔
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے عدالت کے قیام کی دسویں سالگرہ کی مناسبت سے ایک مضمون شائع کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران 121 ممالک اس عدالت کے چارٹر کی توثیق کرکے اس کا دائرہ اختیار تسلیم کرچکے ہیں۔
لیکن امریکہ نے اب تک نہ تو اس معاہدے کی توثیق کی ہےاور نہ ہی عن قریب اس کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔ اخبار نے جنگی جرائم کی عالمی عدالت کے بارے میں امریکی رویے کو غیر واضح قرار دیتے ہوئے اس پہ تنقید کی ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ 90ء کی دہائی میں امریکی کانگریس نے ایک بین الاقوامی عدالت کے قیام کے حق میں کئی قراردادیں منظور کی تھیں اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ کے اہلکار مجوزہ عدالت کے قیام کے لیے ہونے والے عالمی مذاکراتی عمل میں پیش پیش تھے۔
لیکن بعدازاں امریکہ نے عدالت کے قیام کے خلاف ووٹ دیا تھا جس کےپسِ پشت 'پینٹا گون' کا یہ خوف کارفرما تھا کہ مجوزہ عدالت جنگی جرائم کے الزام میں امریکی فوجی حکام کے خلاف بھی کاروائی کرسکتی ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ 'پینٹاگون' کا یہ خوف صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے زیرِ اثر امریکی کانگریس نےایک قانون بھی منظور کیا جس کے تحت امریکہ پابند ہے کہ وہ عالمی عدالت برائے جرائم اور اس کی توثیق کرنے والے ممالک کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کرے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کا یہ خوف سراسر بے بنیاد ثابت ہوچکا ہے اور عدالت نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران کسی ایک بھی امریکی شہری کے خلاف نہ تو کوئی کاروائی کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی عندیہ دیا ہے۔ یہاں تک کہ عدالت کا استغاثہ جنگِ عراق کے دوران امریکی فوجیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے سے بھی انکار کرچکا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ عالمی عدالت کی دسویں سالگرہ کے موقع پر امریکہ کو اپنی پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے اور انصاف کے ساتھ اپنی وابستگی کے اظہار کےلیے عدالت کے ساتھ تعاون کا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔
اخبار 'فلاڈیلفیا انکوائرر' نے اپنے ایک مضمون صدر اوباما کے اس حکم نامے کی تحسین کی ہے جس کے ذریعے غیر قانونی طور پر مقیم نوجوان تارکینِ وطن کی امریکہ سے بے دخلی روک دی گئی ہے۔
اخبار نے صدر اوباما کے فیصلے کو "دیر آید درست آید" قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حکم سے ان لاکھوں نوجوانوں نے سکون کا سانس لیا ہے جن کے سر پر ملک بدری کی تلوار لٹک رہی تھی۔
'فلاڈیلفیا انکوائرر' لکھتا ہے کہ صدر اوباما کے دورِ حکومت میں اب تک 11 لاکھ ایسے تارکینِ وطن کو امریکہ سے بے دخل کیا جاچکا ہے جو غیر قانونی طور پر یہاں مقیم تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ان ملک بدر کیے گئے تارکینِ وطن میں سے یقیناً ایسے افراد بھی ہوں گے جو تاخیر سے دی جانے والی اس سہولت کا فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں گے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کی اس پالیسی کے نتیجے میں ہزاروں خاندان تقسیم ہوگئے ہیں جب کہ کئی دیگر تقسیم کے خوف تلے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔
'فلاڈیلفیا انکوائرر' کے مطابق صدر اوباما کے حکم کے بعد امریکہ کی داخلی سلامتی کے محکمہ نے ان 14 لاکھ نوجوانوں کو بے دخل کرنے کا عمل روک دیا ہے جن کے پاس امریکہ میں قیام کے لیے قانونی دستاویزات موجود نہیں۔ لیکن اس فیصلے کے باوجود ان نوجوانوں کے سر پر ملک بدری کی تلوار بدستور لٹکتی رہے گی تاوقتیکہ انہیں امریکہ میں قیام کی اجازت نہیں مل جاتی۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کو تارکینِ وطن سے متعلق ایک نئی پالیسی کی ضرورت ہے جس کے ذریعے انہیں بہتر زندگی اور معاشرے میں انضمام کا موقع میسر آسکے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: