آخرِ کار امریکی قوم نے عراق کے بارے میں وہ خبر سن لی جسے سننے کے وہ نو سال سے منتظر تھے۔ آج کے بیشتر امریکی اخبارات نے صدر اوبا ما کی جانب سے اس سال کے آخر تک عراق سے تمام امریکی فوجیوں کی واپسی کے جمعے کے اعلان کو اپنے اداریوں کا موضوع بنایا ہے۔
ایسے ہی ایک اداریے میں اخبار ’نیوز ڈے‘ نے لکھا ہے کہ یہ اس تنازع کا حیرت انگیز طور پر ایک خاموش اختتام ہے جس نے مارچ 2003 میں عراق پر حملے کے بعد سے امریکی قوم کو مشکل میں ڈال رکھا تھا۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکی فوجیوں اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی تعداد نے عراق میں ایک ظالم اور خوفناک ڈکٹیٹر کا خاتمہ کیا اور اس ملک کو ایک آزاد اور جمہوری مستقبل کے حصول کا ایک حقیقی موقع فراہم کیا جو کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔
اخبار اس لڑائی اور بعد میں ہونے والی تعمیر نو میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والے اور خاص طور پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجیوں کو خراج پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ وہ قوم کی طرف سے زبردست تحسین اور تعظیم کے حقدار ہیں ۔ انہوں نے واقعی شاندار کاکردگی کا مظاہرہ کیا ۔
لیکن، اخبار لکھتا ہے کہ ہماری فوجی فتح کے باوجود عراق میں جنگ کے لیے گزشتہ برسوں میں پیش کیے جانے والے امریکی سرکاری جواز امریکہ کی ساکھ کو متاثر کرنے کی وجہ بنے۔ مثلاً اس کی طرف سے جنگ کے لیے سب سے پہلےعراق میں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کا جواز پیش کیا گیا جو اپنا وجود نہیں رکھتے تھے پھر اس جنگ کے لیے نائن الیون کے حملوں کے انتقام کا جواز پیش کیا گیا جن سے عراق کاسرے سے کوئی تعلق نہیں تھا اورآخر کار اس جنگ کو جمہوریت کے قیام میں مدد کے جواز پر انجام کو پہنچایا گیا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ وہ اپنے سابقہ اداریوں میں اس جنگ کی حمایت کر چکا ہے لیکن بعد کے حالات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ امریکہ کو یہ جنگ نہیں لڑنی چاہیے تھی جس پر اس کے لگ بھگ ایک ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے ،جو یک طویل عرصے پر محیط رہی اورجس کے نتیجے میں ہونےو الے ضمنی نقصانات میں خفیہ جیلوں ، اذیت رسانی اور دوسرے بہت سے الزامات کی خجالت بھی شامل تھی ۔
اپنے اداریے کے اختتام پر اخبار لکھتا ہے کہ صدر اوباما نے طے شدہ منصوبے کے مطابق عراقی سیکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیےوہاں چند ہزار امریکی فوجی باقی رکھنے کااپنا پروگرام بھی اس لیے ترک کر دیا ہے کہ عراقیوں نے امریکی فورسز کو اپنی عدالتوں میں مقدمات سے استثنا دینے سے انکار کر دیا ، جو اخبار کے بقول بغداد کی غلطی تھی ، اور اس لیے اخبار لکھتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عراق کو عراقیوں پر چھوڑ دیا جائے۔
اور عراق سے امریکی فوجیوں کی واپسی پر ہی اپنے ایک اداریے میں ’شکاگو ٹریبون‘ نے لکھا ہے کہ عراق کی جانب سے ا پنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور عراقی سیکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے باقی رکھے جانےو الے ہزاروں فوجیوں کو عراقی عدالتوں میں قانونی تحفظ کی فراہمی سے انکار کے بعد انہیں وہاں نہ رکھنے کا صدر کافیصلہ بالکل درست ہے ۔ کیوں کہ اس استثنا کے بغیر امریکی فوجیوں کو عراقی قوانین کے تحت گرفتاریوں اور سزا کا سامنا ہو سکتا تھا۔ تاہم، اخبار لکھتا ہے کہ اس انخلا سے عراق میں جو خلا پیدا ہو گا اس کے نتیجے میں گزشتہ نو برسوں میں امریکی فوجیوں نے وہاں جو کامیابیاں بڑی مشکل سے حاصل کی تھیں وہ اکارت جا سکتی ہیں ۔
آگے چل کراخبار لکھتا ہے کہ عراقی سیکیورٹی فورسز ابھی تک اپنے لاجسٹکس ، انٹیلی جینس اور ملک کی آبی شاہراہوں اور فضائی گزر گاہوں کے دفاع کے لیے امریکی فوجیوں پر انحصار کرتی ہیں ۔ وہاں ابھی تک شورش پسندی، تشدد دہشت گردی کےخلاف جنگ جاری ہے ۔ اور اس کا خطرنا ک دشمن ایران ،جو دہشت گردی کی مالی مدد کرتا ہے کسی زمانے کےاپنے اس دشمن ملک کو ایک پراکسی اسٹیٹ کے طو ر پر کنٹرول کرنے خواب دیکھ رہاہے ۔ اس لیے اخبار لکھتا ہے کہ اگر عراق چند ہزار امریکی فوجیوں کو ملک میں رکھنے کی اجازت دے دیتا تو اس سے امریکہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے اورعراق کو مشرق وسطیٰ میں ایک مستحکم ملک کے طور پر قدم جمانے میں اس کی مدد کر سکتا تھا ۔ لیکن اب جب امریکی فوجی 31 دسمبر تک عراق سے رخصت ہو جائیں گے تو عراق کو بہتر یا بد تر ، ہر قسم کے حالات کا مقابلہ خود ہی کرنا ہو گا ۔
اخبار’ہیوسٹن کرانیکل‘ کے ایک ادارئے کا موضوع ہے قذافی کا خونریز دور حکومت اور خونریز خاتمہ۔ اخبار لکھتا ہے کہ لیبیا کے مقتول ڈکٹیٹر کی خون میں لت پت تصاویر کو دنیا بھر میں سوشل نیٹ ورک کے انہی آلات پر دیکھا گیا جن کے ذریعے عرب دنیا کے مظاہرین دوسرے متعدد ڈکٹیٹرز کا تختہ الٹنے کی مہم میں شامل ہوئے تھے ۔
اخبار قذافی کے دور اقتدار کے خاتمے کے ضمن میں صدر اوباما کی لیبیا پر پالیسی کو سراہتےہوئے لکھتا ہے کہ اگرچہ ابتدا میں لیبیا پر ان کی حکمت عملی کو ، انتہائی زیادہ یا انتہائی کم اقدامات پر مبنی قرار دے کر ، اندرون ملک ا س پر سخت تنقید کی گئی تھی لیکن ان کی یہ حکمت عملی کسی ایک بھی امریکی فوجی کے جانی نقصان کے بغیر اور عراق اور افغانستان میں فوجی کارروئیوں پر اٹھنے والی لاگت کے مقابلے میں انتہائی کم خرچ کے ساتھ کامیاب رہی ۔
اخبار لکھتا ہے کہ لیبیا میں یہ کامیابی اس سال صدر اوباما کی فوجی کامیابیوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہے جن میں پاکستان میں ایک مہلک حملے کے ذریعے اوسامہ بن لادن اور یمن میں امریکی نژاد دہشت گرد انور الاولقی کی ہلاکت شامل تھی۔اور اخبار لکھتا ہے کہ ان کامیابیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اب صدر براک اوباما کے خلاف اس نکتہ چینی کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا کہ دہشت گردی پر ان کا رویہ نرم ہے۔اور ان کامیابیوں کے پیش نظراخبار لکھتا ہے کہ امریکی قوم لیبیا کی آزادی اور دنیا کے کچھ بد ترین دہشت گردوں کے خاتمے میں اپنی مسلح افواج کی جانب سے ادا کیے جانے والے کردار پر فخر کر سکتی ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: