امریکی خسارے کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے جو نام نہاد سُوپر کمیٹی بنائی گئی تھی اُس کی ناکامی پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اِس کمیٹی کی طرف سے کوئی اچھا سبق نہیں ملا ہے ۔ناکامی کی وجہ اُس کا طریق کار نہیں تھا، بلکہ دونوں طرف کی نظریاتی ہٹ دھرمی تھی اور کمیٹی کے ارکان کے درمیان سمجھوتہ نہ ہو سکنا آئندہ کے مذاکرات کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگلے سال جو انتخابات ہونے والے ہیں اُن کے نتیجے میں وہائٹ ہاؤس کا مکین بدل سکتا ہے۔ اور ایوان کے ایک یا دونوں ایوانوں میں کس کی اکثریت ہوگی۔ اس میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ ۔ لیکن اخبار کے خیال میں یہ بات اغلب نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں قومی قرضے سے متعلّق دونوں پارٹیوں کےموقّف کے حق میں ووٹروں کا ابہام سےپاک مینڈیٹ یا اختیار آئےگا۔
’نیو یارک ٹائمز‘ نے کمیٹی کی ناکامی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ری پبلکن متمول لوگوں پر ٹیکس لگانے کی مخالفت میں تھے، بلکہ وہ تو ٹیکسوں کی موجودہ کم ترین سطح کو اوربھی کم کرنا چاہتے تھے، جب کہ واشنگٹن میں ری پبلکنز کا یہ موقف تھا کہ ڈیموکریٹ عوام کو حاصل مراعات مثلاًسوشیل سیکیورٹی، میڈک ایڈ وغیرہ میں کسی رد و بدل کے لئے تیار نہیں تھے ۔
’نیشنل ریویو‘ نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ڈیموکریٹ ٹیکسوں میں جو بھاری اضافہ کرنا چاہتے تھے اس کی وجہ سے پھر بھی وہ خسارہ کم نہ ہوتا، جو مراعات کے پروگرام میں اصلاح کئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا تخمینہ ہے کہ اگر سوشیل سیکیورٹی اور دوسری مراعات کو موجودہ سطح پر برقرار رکھا گیا ۔ تو پھر انکم ٹیکس ، پے رول ٹیکس ، اوراکسائز ٹیکس وغیرہ میں 88 فیصد اضافہ ناگُزیر ہو جائے گا۔
’ آری گونین‘ اخبار کہتا ہے کہ ری پبلکن ٹیکس نہ بڑھانے کے اس عہد کے دباؤ میں ہیں جس پر ایوان نمائیدگان کے تمام ری پبلکن ارکا ن دستخط کر چکے ہیں، جب کہ ڈیموکریٹوں پر بائیں بازُو کے اُن حلقون کا دباؤ ہے جوسوشیل سیکیورٹی اور میڈک ایڈ پر آنچ آنے نہیں دینا چاہتے
ادھر ’نیشنل جرنل‘ میں ران فرنئیر ایک کالم میں رقطراز ہیں ۔ کہ ری پبلکنز کے لئے یہ شرم کا مقام ہے کہ وہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جب کہ ڈیمو کریٹوں کے لئے بھی یہ شرم کی بات ہے ، کہ وہ سوشیل سیکیورٹی وغیرہ میں کسی تخفیف کے روادار نہیں ۔ واشنگٹن ایک بار پھر اپنے مسائل سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے۔ پبلک سسٹم ناکارہ ہو گیا ہے اور وقت آ رہا ہے جب ووٹر یہ فیصلے اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ مضموں نگار کا خیال ہے ایک تیسری پارٹی کاابھرنا ، یا موجودہ پارٹیوں میں ڈرامائی تبدیلی ایک ناگزیر امر ہے ، اور قوم کی لئے سنہ 2011 میں یہ موقع ہاتھ سے جانے دینا شرم کا مقام ہے۔
شُکرانے کے دن کی مناسبت سے ’شکاگو سن ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ملک کی معیشت کا ابھی بھی برا حال ہے ، بے روزگاری کی شر ح اب بھی بہت اونچی ہے،۔ جب کہ مکانوں کی قیمتیں برابر گرتی جارہی ہیں۔ تو پھر شکرانہ کس بات کا؟
اخبار کہتا ہے کہ ہم اس بات کے شکر گزار ہیں کہ اس سے ہماری یاد دہانی ہوتی ہے کہ اہم بات یہ نہیں کہ ہمارے پاس کتنا پیسہ ہے اور بڑے دن کے موقع پر کتنا خرچ کر سکتے ہیں، بلکہ جو چیز اہم ہے خاص طور پر مشکل گھڑی میں ، وہ ہیں ہمارے درمیان رہنے والے لوگ اور وہ اچھا وقت جو ہم ان کے ساتھ گزارتے ہیں اور جو مسرت ہمیں ان کی معیت میں ہمیں میسر ہوتی ہے۔ شکرانے کے دن کا یہی مقصد ہے ۔
اخبار کہتا ہے مذہبی یا دوسرے تہوار وں سے سوچ بچار اورشکر بجا لانے کی ترغیب ملتی ہے۔ لیکن کوئی تعطیل شکرانے کی دن کی طرح تفکّرات سے آزاد یا آفاقی نوعیت کی تعطیل نہیں، اس میں مذہبی رسوم نہیں ہوتیں، تحفےتحائف کا تبادلہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی دینی بنیاد پر لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔ اگر آپ امریکی ہیں اورامریکہ میں رہتے ہیں تو یہی تعطیل آپ کے لئے موزوں تعطیل ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: