آزادی کا مطلب محض غلامی کی زنجیریں توڑنا نہیں۔ بلکہ ایسی زندگی گزارنا ہے جس کی بدولت دوسروں کی آزادی کا نہ صرف احترام ہو، بلکہ وہ اس کی تقویت کا باعث بھی ہو: مینڈیلا
واشنگٹن —
ایسے میں جب جنوبی افریقہ کے فرشتہ صفت لیڈر نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات کی تیاریاں ہور رہی ہیں، ’یو ایس اےٹو ڈے‘ اخبار میں لُوئی برین سن نے اس انقلابی لیڈر کی عمر بھر کی جدوجہد کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بطل حریّت۔ اور جنوبی افریقہ کے درویش صفت باوا کے درجنوں خطاب تھے، جنوبی افریقہ کے سابق صدر، نوبیل امن انعام یافتہ، نسلی تفریق کے خاتمے کے لئے لڑنے والا مجاہد۔ حتیٰ کہ لینن امن انعام یافتہ بھی۔ لیکن، دل میں منڈیلا ایک ایسے فرد ثابت ہوئے جنہوں نے ایسے کارنامے سر انجام دئے، جن کی اُن سے توقّع نہیں کی گئی تھی۔
ایک صدی پر محیط، نو آبادیاتی دور کے خاتمے پر افریقہ کے لیڈروں نےوعدہ تو آزادی اور جمہوریت کا کیا تھا، لیکن وُہ ایسے بدعنوان ڈکٹیٹر ثابت ہوئے، جنہوں نے کُشت و خون اور تشدّد کا بازار گرم رکھا۔ مثلاً یوگنڈا کے ایدی امین اور زمباب وی کے رابرٹ موگابے، ایسے لوگوں کی فہرست طویل ہے، اور دیکھا جائے تو اوروں کے مقابلے میں منڈیلا کے پاس اسی تکبّر اور قصّاص کی راہ اختیا کرنے کا زیادہ جواز تھا۔
انہوں نے سفید فاموں کے قیدخانوں میں27 برس گُذارے، ان میں سے بہت سے قید تنہائی میں جہاں ان سے مشقّت بھی کروائی گئی۔ لیکن، منڈیلا کا اس پر جو ردّ عمل ہوا، وُہ بالکل اُلٹ تھا۔ وُہ ڈکٹیٹروں کے دُشمن بن گئے۔
اپنی زندگی کے دوران ایک تاریخ ساز شخصیت کے مالک، جن کی اخلاقی عظمت مہاتما گاندھی اور آنگ سین سُوچی کے ہم پلّہ تھی۔سنہ1990 میں رہائی کے بعد منڈیلا نے سفید فام صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک سے مل کر حکومت چلائی سفید فاموں کو ملک سے فرار نہیں ہونے دیا اور منڈیلا نے پہلے جمہوری انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو ڈی کلارک کو اپنا نائب مقرر کیا۔ کوئی انتقامی کاروائی کرنے کی بجائے سچائی اور مصالحت کا کمیشن مقرر کیا اور نسلی مصالحت کو فروغ دیا۔ اور منڈیلا نے1999 ءمیں سیاست سے ریٹائر ہو کر اپنی قوم پر آخری احسان کیا۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اُن کی وفات پر جنوبی افریقہ کے عوام کو جو صدمہ ہے، اُسے وہ منڈیلا کی اُن روایات کو مضبوط کرنے کے لئے موڑ سکتے ہیں، جن کی مدد سے انہُوں نے جنوبی افریقہ کو ایک نئی جہت دی۔ جنوبی افریقہ کے پاس یوم منڈیلا یعنی 18 جولائی کا یوم پیدائش ہے، جب وہ انہیں یاد کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے پیچھے اپنی کتابیں اور تقریریں چھوڑ گئے ہیں، جن میں اُن کا یہ مقولہ شامل ہے۔ آزادی کا مطلب محض غلامی کی زنجیریں توڑنا نہیں ہے۔ بلکہ ایسی زندگی گزارنا ہے جس کی بدولت دوسروں کی آزادی کا نہ صرف احترام ہو، بلکہ وہ اس کی تقویت کا باعث بھی ہو۔
ہندوستان میں چار بڑی ریاستوں کے انتخابات میں مرکز میں بر سر اقتدار کانگریس پارٹی کی شکست کو شرمناک قرار دیتے ہوئے، ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ ان انتخابات کے جو سرکاری نتائج جاری کئے گئے ہیں وُہ کم و بیش ایگزِٹ پولز کے مطابق ہی تھے۔ لیکن، کانگریس پارٹی کی جس درجے کی ہزیمت ہوئی ہے، وُہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھی۔ اور بیشتر مبصّرین اور رائے عامہ کے جائزہ لینے والوں کو اس سے بڑی حیرت ہوئی ہے۔
نئی دہلی کی پولنگ کمپنی ٹُوڈیز، چانِکیہ کے چیف ایگزیکیٹِو وی کے بجاج کا کہنا ہے کہ ایگزٹ پولز بعض وقات حقیقت سے دُور ہو جاتے ہیں، جب بُہت زیادہ ووٹر سوال کرنے پر کہتے ہیں کہ ابھی، انہوں نے حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے، اور پچھلے ماہ الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں سے پوچھا تھا کہ آیا انتخابات کے دوران رائے عامہ کے جائزے بند
کرائے جایئں، کانگریس پارٹی نے اس کی حمائت کی تھی۔ لیکن، ’بی جے پی‘ نے اس کی مخالفت کی تھی۔
چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ ایگزٹ پولز سے ظاہر ہوتا تھا کہ لوگوں کا رُجحان کانگریس پارٹی سے ہٹ کر ’بی جے پی‘ کی طرف ہو رہا ہے، لیکن کسی نے صحیح اندازہ نہیں لگایا تھا کہ یہ تبدیلی اتنی وسیع پیمانے کی ہوگی۔
اخبار ’نیو یارک نیوز ڈے‘ کہتا ہے کہ 1981 ءمیں ایڈز کے مرض کی دریافت کے بعد، طبّ کے شعبے میں اتنی ترقّی ہوئی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت اس مُوذی مرض پر قابو تو پایا جا سکتا ہے، لیکن، اس کو جڑ سے نہیں اُکھاڑا جا سکتا۔ چنانچہ، ایڈز پھیلانے والا وائرس، ایچ آئی وی برابر پھیلتا جا رہاہے۔
دنیا بھر میں اس وقت ایڈز کے مریضوں کی کُل تعداد تین کروڑ چالیس لاکھ ہے، جن میں سے گیارہ لاکھ امریکہ میں ہیں ۔ امریکہ میں ہر ساڑھے نو منٹ میں، یہ مرض کسی نہ کسی کو لگ جاتا ہے اور ہر سال لگ بھگ پچاس ہزار انسان اس میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔ یہ تعداد، سنہ 1990 کی دہائی کے وسط سے چلی آ رہی ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ نئے مریضوں میں آٹھ فی صد وہ ہیں، جہنیں انجکشن کے ذریعے منشیات کے استعمال کی عادت ہے۔ نیویارک شہر میں انجکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔
ایک صدی پر محیط، نو آبادیاتی دور کے خاتمے پر افریقہ کے لیڈروں نےوعدہ تو آزادی اور جمہوریت کا کیا تھا، لیکن وُہ ایسے بدعنوان ڈکٹیٹر ثابت ہوئے، جنہوں نے کُشت و خون اور تشدّد کا بازار گرم رکھا۔ مثلاً یوگنڈا کے ایدی امین اور زمباب وی کے رابرٹ موگابے، ایسے لوگوں کی فہرست طویل ہے، اور دیکھا جائے تو اوروں کے مقابلے میں منڈیلا کے پاس اسی تکبّر اور قصّاص کی راہ اختیا کرنے کا زیادہ جواز تھا۔
انہوں نے سفید فاموں کے قیدخانوں میں27 برس گُذارے، ان میں سے بہت سے قید تنہائی میں جہاں ان سے مشقّت بھی کروائی گئی۔ لیکن، منڈیلا کا اس پر جو ردّ عمل ہوا، وُہ بالکل اُلٹ تھا۔ وُہ ڈکٹیٹروں کے دُشمن بن گئے۔
اپنی زندگی کے دوران ایک تاریخ ساز شخصیت کے مالک، جن کی اخلاقی عظمت مہاتما گاندھی اور آنگ سین سُوچی کے ہم پلّہ تھی۔سنہ1990 میں رہائی کے بعد منڈیلا نے سفید فام صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک سے مل کر حکومت چلائی سفید فاموں کو ملک سے فرار نہیں ہونے دیا اور منڈیلا نے پہلے جمہوری انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو ڈی کلارک کو اپنا نائب مقرر کیا۔ کوئی انتقامی کاروائی کرنے کی بجائے سچائی اور مصالحت کا کمیشن مقرر کیا اور نسلی مصالحت کو فروغ دیا۔ اور منڈیلا نے1999 ءمیں سیاست سے ریٹائر ہو کر اپنی قوم پر آخری احسان کیا۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اُن کی وفات پر جنوبی افریقہ کے عوام کو جو صدمہ ہے، اُسے وہ منڈیلا کی اُن روایات کو مضبوط کرنے کے لئے موڑ سکتے ہیں، جن کی مدد سے انہُوں نے جنوبی افریقہ کو ایک نئی جہت دی۔ جنوبی افریقہ کے پاس یوم منڈیلا یعنی 18 جولائی کا یوم پیدائش ہے، جب وہ انہیں یاد کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے پیچھے اپنی کتابیں اور تقریریں چھوڑ گئے ہیں، جن میں اُن کا یہ مقولہ شامل ہے۔ آزادی کا مطلب محض غلامی کی زنجیریں توڑنا نہیں ہے۔ بلکہ ایسی زندگی گزارنا ہے جس کی بدولت دوسروں کی آزادی کا نہ صرف احترام ہو، بلکہ وہ اس کی تقویت کا باعث بھی ہو۔
ہندوستان میں چار بڑی ریاستوں کے انتخابات میں مرکز میں بر سر اقتدار کانگریس پارٹی کی شکست کو شرمناک قرار دیتے ہوئے، ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ ان انتخابات کے جو سرکاری نتائج جاری کئے گئے ہیں وُہ کم و بیش ایگزِٹ پولز کے مطابق ہی تھے۔ لیکن، کانگریس پارٹی کی جس درجے کی ہزیمت ہوئی ہے، وُہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھی۔ اور بیشتر مبصّرین اور رائے عامہ کے جائزہ لینے والوں کو اس سے بڑی حیرت ہوئی ہے۔
نئی دہلی کی پولنگ کمپنی ٹُوڈیز، چانِکیہ کے چیف ایگزیکیٹِو وی کے بجاج کا کہنا ہے کہ ایگزٹ پولز بعض وقات حقیقت سے دُور ہو جاتے ہیں، جب بُہت زیادہ ووٹر سوال کرنے پر کہتے ہیں کہ ابھی، انہوں نے حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے، اور پچھلے ماہ الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں سے پوچھا تھا کہ آیا انتخابات کے دوران رائے عامہ کے جائزے بند
کرائے جایئں، کانگریس پارٹی نے اس کی حمائت کی تھی۔ لیکن، ’بی جے پی‘ نے اس کی مخالفت کی تھی۔
چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ ایگزٹ پولز سے ظاہر ہوتا تھا کہ لوگوں کا رُجحان کانگریس پارٹی سے ہٹ کر ’بی جے پی‘ کی طرف ہو رہا ہے، لیکن کسی نے صحیح اندازہ نہیں لگایا تھا کہ یہ تبدیلی اتنی وسیع پیمانے کی ہوگی۔
اخبار ’نیو یارک نیوز ڈے‘ کہتا ہے کہ 1981 ءمیں ایڈز کے مرض کی دریافت کے بعد، طبّ کے شعبے میں اتنی ترقّی ہوئی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت اس مُوذی مرض پر قابو تو پایا جا سکتا ہے، لیکن، اس کو جڑ سے نہیں اُکھاڑا جا سکتا۔ چنانچہ، ایڈز پھیلانے والا وائرس، ایچ آئی وی برابر پھیلتا جا رہاہے۔
دنیا بھر میں اس وقت ایڈز کے مریضوں کی کُل تعداد تین کروڑ چالیس لاکھ ہے، جن میں سے گیارہ لاکھ امریکہ میں ہیں ۔ امریکہ میں ہر ساڑھے نو منٹ میں، یہ مرض کسی نہ کسی کو لگ جاتا ہے اور ہر سال لگ بھگ پچاس ہزار انسان اس میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔ یہ تعداد، سنہ 1990 کی دہائی کے وسط سے چلی آ رہی ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ نئے مریضوں میں آٹھ فی صد وہ ہیں، جہنیں انجکشن کے ذریعے منشیات کے استعمال کی عادت ہے۔ نیویارک شہر میں انجکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔