امریکی اخبارات سے:ملالہ کا اقوام متحدہ سے خطاب

’دُنیا بھر میں ایسی کروڑوں ملالائیں ہیں جنہیں تشدّد، امتیاز اور فرسودہ رسم و رواج کی وجہ سے تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے‘
اقوام متّحدہ میں جمعے کے روز 16 سالہ ملالہ یوسف زئی کی تقریر پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ لکھتا ہے کہ ایسی بُہت ہی کم لڑکیاں ہونگی جنہیں اپنی سولہویں سالگرہ پر اِس عالمی ادارے سے خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہو۔ لیکن، جیسا کہ اخبار کہتا ہے، ملالہ یوسف زئی اپنی ہم عمر لڑکیوں سے بہت مختلف ہے۔

ملالہ پر ایک طالبان شدّت پسند نے قاتلانہ حملہ کیا تھا، جب وہ پاکستان کی وادئ سوات میں سکول سے اپنے گھر واپس جا رہی تھی اور اس کے سر میں سنگین چوٹیں آئی تھیں ۔ اُس کا قصور یہ تھا کہ وہ تعلیمِ نسوان کی سرگرمی سے حمائت کرتی تھی۔ اُسے علاج کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ اقوام متحدہ سے ملالہ کا خطاب صحیح معنوں میں ایک عظیم الشان تقریب تھی، جس کا اہتمام بچوں کے حقوق کی حامی تنظیم ’پلین انٹرنیشنل‘ نے کیا تھا، اور جس کے چیف اگزیکٹو، نِگیل چیپ مین نے ملالہ کے بارے میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں لڑکیاں، تعلیم کے حصول کے لئے جِس مشکل جدوجہد میں مصروف ہیں، اُس میں ملالہ کی شخصیت کو مثالی حیثیت حاصل ہے۔ اور دُنیا بھر میں ایسی کروڑوں ملالائیں ہیں جنہیں تشدّد، امتیاز اور فرسودہ رسم و رواج کی وجہ سے تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

ملالہ کی سرگرمیاں سنہ 2009 میں بی بی سی کے کہنے پر ایک بلاگ سے شروع ہوئیں اِس میں وُہ وادئ سوات کے شب و روز کا احوال بیان کرتی تھی، جہان طالبان کا اثرو نفوذ بڑھ گیا تھا۔ اور تین سال بعد اِنہیں طالبان نے ملالہ اور دو اور لڑکیوں اپنا نشانہ بنایا تھا۔

’لاس انجلیس‘ کہتا ہے کہ اس وقت بھی پاکستان میں تعلیم نسواں کے خلاف انتہا پسندوں کی مہم جاری ہے۔

ادھر ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک باتصویر مضمون میں طالبان کی طرف سے پاکستانی لڑکیوں کے سکولوں کے محاصروں کا ذکر ہے۔ اور شمال مغربی علاقے میں شدت پسندوں نے جس طرح تعلیم نسواں کے خلاف پُر تشدّد مہم چلائی ہے۔ سکولوں کو بموں کا نشانہ بنایا ہے اور طلبہ اور والدین میں دہشت پھیلائی ہے۔ اُس کے پیش نظر انتہائی سخت قدم اُٹھانا ضروری ہو گیا ہے۔ سنہ 2008 کے بعد سے اس خطے میں 900 سے زیادہ سکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستا ن کے طالبان سکولوں کو مغربی انحطاط اور سکولوں کو حکومت کے اختیار کی علامت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُن پر حملے کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ فوج کو سکولوں کے اندر عارضی اڈّے بنانے سے روکا جائے۔ رات کو حملے کرنا، بم نصب کرنا اور ڈیسکوں اور بلیک بورڈوں کو تہس نہس کرنا طالبان کا وطیرہ ہے۔ جنہوں نے والدین اور طلبہ، دونوں پر اپنا دباؤ جاری رکھا ہے۔ رات کو دیواروں پر اشتہار چسپاں کئے جاتے ہیں، جن میں لڑکیوں کے سکولوں کو مغرب کی پیدوار قرار دیا جاتاہے اور پاکباز مسلمانوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ وُہ ان سے دور رہیں۔

رائیٹرز کے حوالے سے ’شکاگو ٹریبیون‘ نے اطلاع دی ہے کہ امریکی جاسوسی ادارے این ایس سی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنووڈن نے روس میں عارضی پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد اُس کا بالآخر لاطینی امریکہ میں پناہ لینے کا ارادہ ہے۔

اخبار کے بقول، ’وِکی لیکس‘ نے ٹُوِٹر پر یہ اطّلاع دی جب ماسکو کے ہوائی اڈّے پر سنووڈن نے ہُیومن رائیٹس واچ کے سرگرم کارکنوں سے ملاقات کی۔


اس کے بعد، اخبار کے مطابق، ایک روسی عہدہ دار نے اس شرط پر کہ اس کا نام نہ ظاہر کیا جائے اِس بات کی تصدیق کردی کہ سنوو ڈن اب سیاسی پناہ کے لئے درخواست دے گا۔

’ہیوسٹن کرانیکل‘ کے مطابق، سنوو ڈن نے ہانگ کانگ سے ماسکو پہنچتے ہی سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔ لیکن، روسی صدر ولادی میر پُوٹن نے اُس وقت کہا تھا کہ سیاسی پناہ اس شرط پر دی جائے گی کہ وُہ امریکی راز افشا کرنا بند کرے اور اس کے بعد روسی عہدہ داروں کے بقول، سنوو ڈن نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔

لیکن، اب اخبار کہتا ہے کہ، حقوق انسانی کے موقّر اداروں کی طرف سے سیاسی پناہ کی اپیل آنے کی صورت میں روس کو اس درخواست پر نظرثانی کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔


وینیزویلا، نکاراگوا اور بولیویا نے سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کی حامی بھری ہے۔

لیکن، یہ واضح نہیں ہے کہ سنووڈن کے لئے اُن میں سے کس ملک میں ہوائی جہاز سے جانا ممکن ہوگا، کیونکہ ایسا کرنا امریکہ یا اُس کے اتّحاددی ملکوں کی سرزمین کے راستے سے گُزرے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔۔