امریکی اخبارات سے: بڑھتا ہوا فرقہ وارانہ تشدد

فائل

حکومت نے لشکر جھنگوی پر بھی روک لگا دی ہے جس نے جنوری کےحملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا تھا اور عوام میں یہ تاثر ہے کہ کراچی کے مضافات عباس ٹاؤن پر تازہ بم حملوں کے پیچھے بھی اُسی کا ہاتھ تھا
پاکستان میں شیعہ اقلیت کو ایک اور بم دھماکے کا نشانہ بنانے کی واردات پر، جس میں 45سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور کراچی میں اتوار کی رات کو پیش آئی، ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اس سے فرقہ وارانہ تشدد کی بڑھتی ہوئی رو کو روکنے میں حکومت کی ناکامی بے نقاب ہوتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ 2012ء کے دوران پاکستان میں شیعہ برادری کے 400سے زیادہ افراد کو نشانہ بنایا گیا جو ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے مطابق ایک سال میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

بلوچستان میں جنوری میں ایک حملے میں 90شیعوں کا قتلِ عام ہوا، پھر پانچ ہفتے بعد کوئٹہ میں ایک بم دھماکے میں مزید 84افراد ہلاک کیے گئے۔

جوابی کارروائی میں بلوچستان کو براہِ راست مرکز کی تحویل میں دے دیا گیا، تاکہ القاعدہ سے وابستہ اُن عسکریت پسند تنظیموں پر روک لگادی جائے جنھوں نے وہاں کھُلے بندوں کارروائی کی ہے۔ حکومت نے لشکر جھنگوی پر بھی روک لگا دی ہے جس نے جنوری کے حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا تھا اور عوام میں یہ تاثر ہے کہ کراچی کے مضافات عباس ٹاؤن پر تازہ بم حملوں کے پیچھے بھی اُسی کا ہاتھ تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستان ایک عشرے قبل اس تنظیم کو غیر قانونی قرار دے چکا ہے، لیکن اُس کے ارکان اُن نئی تنظیموں کے جھنڈے تلے کھُلم کھلا سرگرمِ عمل ہیں جو پنجاب کے جنوبی حصے میں عوامی حمایت حاصل کر رہی ہیں۔ بلکہ، انتخابات میں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیےووٹ حاصل کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔

پولیس کی رپورٹ ہےکہ تازہ ترین دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے علاوہ 150افراد زخمی بھی ہوئے اور پولیس والے بڑی دیر میں جائے واردات پر امداد کو پہنچے، جِن میں سےبہت سارے ایک صوبائی وزیر کی منگنی کی تقریب میں ڈیوٹی دے رہے تھے۔

اخبار کہتا ہے کہ کراچی کےسانحے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ لیکن، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے بھی لشکرِ جھنگوی کا ہاتھ ہوگا۔

اخبار کہتا ہے کہ کراچی اور بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد میٕں ایک دوسرے سے مختلف عوامل کارفرما ہیں۔

کراچی کا وسیع و عریض شہر کئی نسلی اورمذہبی عقائد سے وابستہ لوگوں کا مرکب ہے۔ جہاں شیعہ سنی فسادات کی طویل تاریخ ہے۔ جبکہ بلوچستان میں سکیورٹی افواج نے ماضی میں سنی تنظیموں کو علٰحدگی پسندوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے استعمال کیا ہے اور فوج نے جہاں پاکستانی طالبان کے خلاف 2009ء سے فوجی کارروائی کی ہے۔ اُس نے دوسری جنگجو تنظیموں سے محاذ آرائی کرنے سے احتراز کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے امور کے ایک ممتاز ماہر اور محکمہ خارجہ کے ایک سابقہ عہدہ دار ڈینس راس کی رائے ہے کہ موجودہ وقت فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین امن کو فروغ دینے کے لیے مشکل وقت ہے۔

’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ میں ایک تجزئے میں وہ کہتے ہیں کہ سیاسی اسلام، شام کی خانہ جنگی اور ایرانی جوہری بم کے بُحران نہ صرف ماحول پر چھائے ہوئے ہیں بلکہ اُن کی وجہ سے امن کے لیے سخت رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔

ڈینس راس کہتے ہیں کہ اگرچہ اِن عوامل کی وجہ سےس اسرائیلی اور فلسطینی امن کے لیے خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن یہ عوامل یہ قضیہ حل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی نہیں ہیں۔ اور بیشتر فلسطینی اور اسرائیلی بالکل یہ یقین نہیں کرتے کہ امن ممکن ہے۔

اسرائیلیوں کی منطق یہ ہے کہ غزہ اور جنوبی لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلانے سے اُنھیں نہ امن نصیب ہوا اور نہ ہی سلامتی بلکہ اس کے بدلے تشدد کو ہوا لگی ہے۔ اس لیے وہ دوبارہ کیوں یہی غلطی کریں اور اپنے وجود کے لیے اس سے بڑا خطرہ مول لیں۔

اِس کے برعکس، فلسطینی باور کرتے ہیں کہ 1993ء کے بعد سے جو مذاکرات ہوئے ہیں۔ اُن کے نتیجے میں آزادی تو نصیب نہیں ہوئی بلکہ اس کے بدلے اُن کی سرزمین پر وسیع یہودی بستیاں قائم ہوگئیں۔ الغرض ، دونوں میں سے کوئی بھی یہ باور نہیں کرتا کہ دوسرا فریق دو مملکتوں والے حل میں مخلص ہے۔

لہٰذا، ڈینس راس کی نظر میں اِن حالات میں یہ تصور کرنا ایک واہمہ ہوگا کہ دونوں فریق اب اس قضیے کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی حل پر جھپٹ پڑیں گے۔ لیکن اس کو کچھ نہ کرنے کا بہانہ نہیں بیایا جاسکتا، کیونکہ یہ تعطل جتنا طول پکڑے گا نا اُمیدی بڑھتی چلی جائے گی۔ چناچہ، اب یہ پہلے سے بھی زیادہ اہم ہوگیا ہے کہ محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کو تقویت دینے اور برقرار رکھنے کے لیے قدم اٹھائے جائیں۔

اِس مقصد کے لیے ڈینس راس نے مذاکرات کے لیے 14نقطوں کے ایجنڈے کی تجویز رکھی ہے اُن میں سے چھ اسرائیل کی جانب سے اور چھ فلسطینی جانب سے ہوں گے۔ جن پر دونوں مذاکرات کریں گے اور عمل کریں گے، بشرطیکہ دوسرا فریق بھی اپنا کردار ادا کرے ۔ باقی دو نقطوں پر دونوں فریق مل کر مشترکہ قدم اٹھائیں گے۔مقصد یہ ہے کہ دو مملکتوں والے حل کے ساتھ دونوں فریقوں کی وابستگی کے بارے میں شکوک و شبہات دور کیے جائیں۔