امریکہ نے فلسطینی عسکری گروہ حماس کی جانب اسرائیل پر حملوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں اسرائیل کو اپنے عوام کے دفاع کے لیے درکار مدد بھی فراہم کی جائے گی۔
ہفتے کو حماس کی جانب سے شروع ہونے والے حملے کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کارروائیوں کا کوئی جواز قابلِ قبول نہیں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات افسوس ناک ہیں۔
صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ ’’کوئی مغالطے میں نہ رہے۔ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔‘‘
اس سے قبل امریکی صدر نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے یک جہتی کا پیغام دیا۔
اس کے علاوہ صدر نے اردن کے بادشاہ اور امریکہ کے سیکیورٹی حکام سے بھی رابطے کیے۔
ہفتے کو وائٹ ہاؤس کے ایک سیینئر عہدے دار نے بتایا کہ بائیڈن حکومت کے حکام نے ہفتے کے دن فلسطینی اتھارٹی، ترکیہ، مصر، سعودی عرب، جرمنی، برطانیہ اور اٹلی کے حکام اور رہنماؤں سے اسرائیل کی صورت حال پر رابطے جاری رکھے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی اپنے بیان میں اسرائیل پر حماس کے حملوں کی مذمت کی اور انہیں اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی پوسٹ میں بلنکن نے خطے کے تمام ممالک پر اس دہشت گردی کی مذمت کرنے کے لیے زور دیا۔
اینٹنی بلنکن نے سوشل میڈیا پوسٹس میں بتایا کہ انہوں نے اسرائیل، سعودی عرب، مصر، ترکیہ، اردن کے وزرائے خارجہ اور قطر کے وزیرِ اعظم سے رابطہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان رابطوں میں انہوں نے اسرائیل کے حقِ دفاع کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا اور عالمی رہنماؤں پر حماس کے دہشت گردوں اور دیگر عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکنے اور امن بحال کرنے کے لیے مشترکہ کاوشوں پر زور دیا۔
امریکی محکمۂ دفاع کے مطابق وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے ہفتے کو اسرائیلی ہم منصب یواف گیلانٹ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انہیں اسرئیلی افواج کی ’غیر متزلزل‘ حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
ایک علیحدہ بیان میں لائیڈ آسٹن نے کہا کہ اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت ہمیشہ برقرار رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ دنوں میں محکمہ دفاع اسرائیل کو اس کے دفاع اور شہریوں کو بے دریغ تشدد اور دہشت گردی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے درکار مدد فراہم کرنے سے متعلق کام کرے گا۔
امریکی افواج اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں سے تعلقات کی نگرانی کرنے والی امریکی سینٹرل کمانڈ نے بھی اسرائیلی عسکری قیادت سے رابطہ کیا ہے۔
سینٹرل کمانڈ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ہول ناک دہشت گردی کے حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
تاہم امریکہ موجودہ صورتِ حال میں اسرائیل کی مدد کے لیے کیا اقدامات کرے گا یہ تاحال واضح نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے طے شدہ ضابطے کے مطابق شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ ہم اسرائیل کی حکومت اور لوگوں کو درکار ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیل کی سیکیورٹی ضروریات اولین ترجیح
وائٹ ہاؤس کے عہدے دار نے 2021 میں اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ شارٹ رینج میزائل سسٹم کے لیے ایک ارب ڈالر کے معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی سیکیورٹی ضروریات امریکہ کی اولین ترجیح ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل میں ہتھیاروں اور گولہ باردو کا ذخیرہ بھی رکھتا ہے اور ماضی میں کم از کم دو مرتبہ اسرائیل سے اس کی تفصیلات کا تبادلہ کرچکا ہے۔
امریکہ نے 2006 میں اسرائیل کو لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں ہدف کو نشانہ بنانے والے گولہ بارود تک رسائی فراہم کی تھی۔
سال2014 میں امریکہ نے حماس کے خلاف غزہ کی پٹی میں آپریشن کے لیے اسرائیل کو ٹینک کے گولے اور دیگر مواد بھی فراہم کیا تھا۔
امریکی فوج کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ہم کوئی بھی مدد فراہم کرنے کے لیے اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) سے رابطے میں ہیں۔‘‘
گولہ بارود کے ذخائر سے متعلق بھی تحفظات پائے جاتے ہیں کیوں کہ امریکہ نے اس میں سے گزشتہ برس کے آخر میں توپ خانے کے تین لاکھ گولے یوکرین کو فراہم کیے تھے۔
اس وقت جس نوعیت کے ہتھیار اور آلات ذخائر میں موجود ہیں وہ ممکنہ طور پر حماس کے جنگ جوؤں کو پسپا کرنے کے لیے فوری طور پراستعمال نہیں ہوسکتے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ڈیفنس اینڈ ڈیموکریسیز میں سینٹر آن ملٹری اینڈ پولیٹیکل پاورٔ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بریڈلی بومین کا کہنا ہے کہ ’’میرا پہلا تاثر یہ ہے جو چیزیں اسرائیل کو اس وقت درکار ہے وہ وہاں موجود نہیں ہیں۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں کہ اس وقت اسلحے کے ذخائر میں کیا ہے۔ اس میں مطلوبہ سامان ہے یا نہیں اور کیا اس کی برابر دیکھ بھال کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کے بعض عسکری اہل کار بھی اسرائیل میں موجود ہیں اور وقتاً فوقتاً امریکی افواج اسرائیلی اہل کاروں کے ساتھ مشقیں بھی کرتی رہتی ہیں۔ ان میں سے حالیہ مشق گزشتہ جولائی میں کی گئی تھی۔
امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں موجود امریکہ کے تمام اہل کار محفوظ ہیں۔
تاہم حکام نے یہ واضح نہیں کیا کہ اسرائیل میں موجود اہل کاروں کی تعداد کتنی ہے۔
ایک اور عہدے دار نے کہا کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امریکہ کے 30 ہزار فوجی اہل کار موجود ہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کیا جارہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایرانی مدد کے ثبوت؟
رواں برس مارچ میں امریکہ کے خفیہ اداروں کی جانب سے جاری کردہ دنیا کو درپیش خطرات کے سالانہ جائزے (ورلڈ تھریٹ اسیسمنٹ) میں اسرائیل کے لیے ایران کے عزائم سے متعلق خبر دار کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران اسرائیل کے لیے اپنے میزائل اور ڈرون پروگرام کے ذریعے براہِ راست اور لبنان میں حزب اللہ اور دیگر پراکسیز کی مدد کی وجہ سے بالواسطہ خطرات کا باعث ہے۔
امریکہ کے سینیئر حکومتی عہدے داروں نے ہفتے کو حماس کے اسرائیل پر حملون میں ایران کے شامل ہونے کے تاثر کی تردید کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اس میں ایران کے ملوث ہونے کے شواہد دست یاب نہیں ہیں۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس کو ایران سے مالی اور ہتھیاروں کی مدد ملتی ہے۔ اس مدد کے بغیر حماس برسوں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی تھی۔
ایران کی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں حماس کے حملے کو اپنے لوگوں کے دفاع کے لیے کی جانے والی کارروائی قرار دیا ہے۔
تاحال امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ضروری خفیہ معلومات کا تبادلہ جاری رکھے گا۔ تاہم واشنگٹن نے حماس کی حالیہ کارروائی سے متعلق کسی پیشگی اطلاع یا وارننگ ہونے کی تردید کی ہے۔