سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ تعلقات استوار ہونےکے امکانات کو دیکھتے ہوئے حالیہ دنوں میں پاکستان میں یہ تبصرے کیے جارہے ہیں کہ اس عمل سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلیاں آ سکتی ہیں اور اس کے مسئلۂ کشمیر پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
اس کے ساتھ ہی یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا پاکستان بھی عرب ممالک کے ساتھ ہی اسرائیل سے اپنے تعلقات قائم کرسکتا ہے؟ کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان پر کسی قسم کا دباؤ آسکتا ہے؟ اگر اسلام آباد تل ابیب کو تسلیم نہیں کرتا تو کیا اسے نقصانات اٹھانا پڑ سکتے ہیں؟
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
سفارتی و مشرقِ وسطیٰ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اسلام آباد کے لیے خود کو اس عمل سے دور رکھنا مشکل ہوگا۔
خیال رہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ ماہ امریکی ٹی وی چینل 'فوکس نیوز' کو ایک انٹرویو میں یہ عندیہ دیا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم مشرقِ وسطیٰ میں ایک تاریخی پیش رفت کے قریب ہو رہے ہیں۔
بعد ازاں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب میں سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے کے قریب پہنچنے کا بیان دیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرکے کسی معاہدے کو قبول کرنا پاکستان اور سعودی عرب دونوں کے لیے مشکل ہوگا۔
'پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا دیگر اسلامی ممالک کے لیے راہ بنائے گا'
خارجہ امور کے صحافی کامران یوسف کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی معاہدے کے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم ممالک پر بہت سے اثرات مرتب ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگومیں انہوں نے کہا کہ ریاض اسلامی ممالک کی قیادت کرتا رہا ہے اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی بنیاد ہی فلسطین کے معاملے پر رکھی گئی تھی۔
ان کے بقول سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بھی پاکستان پر دباؤ کی خبریں چلتی رہیں کہ اسلام آباد تل ابیب سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔
کامران یوسف نے کہا کہ پاکستان اسلامی ممالک میں بڑا اور اہم ملک ہے اور اسرائیل سے متعلق کسی بھی معاہدے میں اسلام آباد کی شمولیت دیگر مسلم ممالک کی اس معاہدے میں شامل ہونے کی راہ ہموار کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے لیے بھی دیگر بڑے مسلم ممالک کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا آسان فیصلہ نہیں ہے کیوں کہ اس فیصلے کا عوامی سطح پر ردِعمل سامنے آ سکتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک مصر، شام، اردن، سعودی عرب اور عمان میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے سابق سفیر جاوید حفیظ کہتے ہیں کہ وہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان اس پیش رفت کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کو مدنظر رکھیں گے۔
ان کے بقول اگر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو اس کا پاکستان پر بھی دباؤ بڑھے گا اور اسلام آباد یقیناً اس پر غور کرے گا۔
جاوید حفیظ کے بقول اگر فلسطینیوں کے حقوق کو مدنظر رکھ کر کوئی معاہدہ کیا جاتا ہے تو پاکستان کو بھی اس کا حصہ بننے میں مشکل نہیں ہو گی۔ اس کے نتیجے میں اگر خطے میں دیرپا امن آسکے تو اس سے بہتر کیا حل ہو سکتا ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے حقوق کا خیال رکھے بغیر نہ صرف پاکستان بلکہ سعودی عرب کے لیے بھی مشکل ہوگا کہ وہ اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرسکے۔
'امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان باقاعدہ نہیں تو اسرائیل سے رسمی تعلقات ہی استوار کرلے'
امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے بعد پاکستان کے لیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ تل ابیب کو تسلیم نہ کرے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل کے نتیجے میں ضروری نہیں کہ اسلام آباد کے تل ابیب سے فوری تعلقات استوار ہوجائیں اور تجارت شروع ہوجائے لیکن کسی محدود سطح پر ہی سہی روابط قائم کرنے پڑ سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر اس معاہدے میں فلسطینیوں کو کچھ نہیں ملتا تو اسے ریاض اور اسلام آباد میں عوامی سطح پر قبولیت نہیں ملے گی۔
عادل نجم نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ سعودی عرب پاکستان سے کیا چاہتا ہے اور اس کی جانب سے کس قسم کا دباؤ آتا ہے۔ ان کے بقول خلیجی دوست ممالک پر انحصار کرتے ہوئے کمزور معاشی صور تِ حال میں پاکستان کے لیے فلسطین کے معاملے پر اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہنا مشکل ہوگا۔
کامران یوسف سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد کے پالیسی ساز اس پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں کیوں کہ معاشی طور پر کمزور پاکستان کو اس عمل سے یکسر دور رکھنا مشکل ہوگا۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب پاکستان سعودی عرب اور متحدہ امارات سے بڑی سرمایہ کاری کی توقع کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمزور معاشی صورتِ حال میں کہیں نہ کہیں خارجہ پالیسی متاثر ہوتی ہے۔ اسی قسم کی صورتِ حال کوالالمپور اجلاس کے وقت بھی پیش آئی تھی جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اجلاس میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن سعودی عرب کے دباؤ کے باعث اس فیصلے پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ بھی سعودی عرب کے ذریعے ہی پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے اور رسمی تعلقات ہی استوار کرے۔
'مسئلہ کشمیر پر بھی سمجھوتا کرنا ہوگا'
مبصرین کا کہنا ہے اگر پاکستان فلسطینیوں کے معاملے پر سمجھوتا کرتا ہے تو اسے کشمیر پر بھی سمجھوتا کرنا ہوگا۔
پروفیسر عادل نجم نے کہا کہ فلسطین کے معاملے پر کسی سمجھوتے سے مسئلہ کشمیر پر بھی اثرات ہوں گے کیوں کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے منسلک دیکھا جاتا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو چاہیےکہ مسئلہ کشمیر کو فلسطینیوں کے معاملے سے نتھی نہ کرے جو کہ اسلام آباد ماضی میں کرتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی خواہش ہوگی کہ ایسے وقت میں جب فلسطینیوں کے معاملے کا حل نکل رہا ہے تو کشمیر کے مسئلے کو بھی حل کرلیا جائے۔
عادل نجم کا کہنا تھاکہ پاکستان کو اپنے بیانیے کےذریعے بتانا ہوگا کہ ضروری نہیں کہ فلسطین کے معاملے کے حل کے نتیجے میں کشمیر کا مسئلہ اہمیت کھو دے گا۔
جاوید حفیظ نے کہا کہ اگر پاکستان فلسطینیوں کے حقوق حاصل ہونے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو اس سے مسئلہ کشمیر پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس عمل سے کشمیر کاز کو حمایت ملے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے او آئی سی کو اسرائیل سے بات چیت کرنی چاہیےتاکہ جو بھی اتفاق رائے یا معاہدہ ہو اسے اسلامی ممالک قبول کرے۔
کامران یوسف بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے میں فلسطینیوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے تو اس سے مسئلہ کشمیر پر فرق نہیں پڑے گا۔لیکن اگر فلسطینیوں کی آزاد ریاست پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے اور پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو اس عمل سے کشمیر پر اسلام آباد کا مؤقف کمزور پڑ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی نقظہ یہی ہے کہ اگر پاکستان فلسطین کے معاملے پر اپنے مؤقف پر سمجھوتہ کرتا ہے تو اسے کشمیر پر اپنے اصول پر بھی سمجھوتہ کرنا ہوگا۔
فورم