یہ سالانہ رپورٹ امریکی کانگریس کے 1998 کے قانون کے مطابق جاری کی جاتی ہے۔ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کے خلاف امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔
لیکن محکمۂ خارجہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ مقصد یہ نہیں ہے کہ تعزیری اقدامات کیئے جائیں بلکہ ملکوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے اس اہم شعبے میں اپنا ریکارڈ بہتر بنائیں۔
پریس کے نمائندوں کے سامنے یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ کلنٹن نے کہا کہ مذہبی آزادی ایک بنیادی انسانی حق اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم عنصر ہے۔
‘‘اس رپورٹ کا مقصد دوسرے ملکوں کےبارے میں فیصلہ صادر کرنا یا خود کو دوسروں کے لیئے نمونہ بنا کر پیش کرنا نہیں ہے۔ لیکن امریکہ کو مذہبی آزادی عزیز ہے۔ ہم نے مذہبی آزادی پر عمل در آمد کے لیئے سخت محنت کی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ مذہبی آزادی ساری دنیا میں عام ہو جائے، اور ہم ساری دنیا میں ان بہادر مردوں اور عورتوں کی حمایت کرنا چاہتے ہیں جو مخالفت اور تشدد کے باوجود اپنے عقائد پر ثابت قدمی سے عمل کرتے ہیں۔’’
رپورٹ میں جن 200 ملکوں کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں سے آٹھ کو CPC یعنی ایسے ملک قرار دیا گیا ہے جن کے حالات خاص طور سے تشویشناک ہیں۔ یہ ملک ہیں، چین، اریٹریا، ایران، شمالی کوریا، سعودی عرب اور افغانستان۔ یہ فہرست وہی ہے جو پچھلے برس تھی لیکن اگلے چند مہینوں میں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ 1999 میں پہلی رپورٹ جاری کیئے جانے کے بعد سے اب تک، ایران ہر سال CPC ملکوں کی فہرست میں شامل رہا ہے۔ نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کی حکومت نے غیر شیعہ اقلیتوں پر سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں، اور بہائیوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا میں مذہبی آزادی کا فقدان ہے، اور ملک میں بڑی تعداد میں جو سیاسی قیدی ہیں، ان میں مذہبی کارکن بھی شامل ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جمہوریت، انسانی حقوق، اور محنت، Michael Posner نے کہا کہ ‘‘شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ہر لحاظ سے یہ ملک انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کرنے والا ملک ہے۔ ہم سے جس طرح بھی ممکن ہو گا، ان حالات کو منظر ِ عام پر لاتے رہیں گے اور دوسرے ملکوں پر بھی زور دیں گے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔’’
رپورٹ میں سعودی عرب میں مذہبی آزادی کے بعض پہلوؤں میں بہتری کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن Posner نے کہا کہ غیر مسلموں کا کھلے عام اپنے مذہب پرعمل کرنا اب بھی ممنوع ہے، اور سعودی حکومت نے اپنے درسی کتابوں سے اشتعال انگیز مواد کو دور کرنے کے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔
‘‘سعودی عرب نے کچھ اقدامات تو کیئے ہیں، لیکن سعودی درسی کتابوں میں اب بھی عیسائیوں، یہودیوں اور دوسرے مذاہب کے بارے میں بہت زیادہ منفی اور گھسے پٹے حوالہ جات موجود ہیں جو قابلِ اعتراض ہیں۔ ان پر ہمیں تشویش ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دوسرے مفادات بھی ہیں۔ لیکن اس معاملے کا تعلق انسانی حقوق کی پالیسی سے ہے۔ ہم ان مسائل پر توجہ دلاتے رہیں گے۔’’
چین میں بعض مثبت رجحانات دیکھنے میں آئے ۔چین کو سب سے پہلے 2004 میں CPC قرار دیا گیا تھا ۔ وزیرِ خارجہ کلنٹن نے تبت میں بدھ مت کے ماننے والوں، غیر رجسٹر شدہ عیسائی گروپوں، اور Uighur مسلمانوں کو پریشان کیئے جانے کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ مذہبی آزادی پر نہ صرف مطلق العنان حکومتوں کی طرف سے، بلکہ متشدد انتہا پسند گروپوں جیسے القاعدہ کی طرف سے حملہ کیا جا رہا ہے۔ یہ گروپ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے پاکستان میں کئی مزارات پر اور بغداد میں ایک شامی کیتھولک چرچ پر حملوں کا خاص طور سے ذکر کیا۔
مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے، رپورٹ میں بہت سے ملکوں کے ان اقدامات کی تعریف کی گئی ہے جو انھوں نے رواداری کے فروغ کے لیئے کیئے ہیں۔ مثلاً لاؤس کے سرکاری عہدے داروں کو مذہبی آزادی کی تربیت دی جائے گی، لبنان کی خانہ جنگی کے دوران تباہ ہونے والی یہودی عبادت گاہ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، اور انڈونیشیا میں ایک بین المذاہب مکالمہ شروع کیا جائے گا۔