سعودی صحافی جمال خشوگی کی پراسرار ہلاکت کی تحقیقات کرنے والی امریکی خفیہ ایجنسی کی جانب سے جمعرات کو تفصیلی رپورٹ جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ پیش رفت سے آگاہ چار امریکی عہدے داروں کے مطابق رپورٹ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو خشوگی کی ہلاکت کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔
امریکی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (سی آئی اے) نے یہ رپورٹ مرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
پیش رفت سے آگاہ چار امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کے قتل کی منظوری دی تھی۔
یاد رہے کہ جمال خشوگی امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' میں کالم لکھتے تھے اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ اُنہوں نے یہ رپورٹ پڑھی ہے اور وہ اس بابت سعودی عرب کے بادشاہ سلمان سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز، 35 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان کے والد ہیں جنہیں سعودی عرب کا ڈی فیکٹو حکمران سمجھا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمال خشوگی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ صدر بائیڈن کی اُن پالیسیوں کا حصہ ہے جس کا مقصد دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور یمن کی خانہ جنگی میں اس کے کردار کا ازسر نو جائزہ لینا ہے۔
بائیڈن، ریاض کے ساتھ تعلقات کو روایتی خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں جس کا مقصد ٹرمپ دور میں سعودی عرب کے معاملات سے مبینہ طور پر صرفِ نظر برتنے کی پالیسی کو تبدیل کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ بائیڈن سعودی بادشاہ کو صرف اس پیش رفت سے آگاہ کریں گے اور بتائیں گے کہ امریکہ یہ رپورٹ ریلیز کر رہا ہے۔
بائیڈن نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سعودی بادشاہ سے براہِ راست کوئی رابطہ نہیں کیا۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مختلف سطح پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ "بائیڈن انتظامیہ کے ابتدائی ہفتوں میں امریکی حکام نے سعودی حکام سے رابطے رکھے تھے۔"
جمال خشوگی کو آخری مرتبہ دو اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ بعدازاں اُنہیں سعودی ولی عہد سے منسلک اہل کاروں کی ٹیم کی جانب سے قتل کیے جانے کی اطلاعات آئی تھیں اور خشوگی کی باقیات آج تک نہیں مل سکیں۔
خشوگی اپنی شادی کے سلسلے میں بعض دستاویزات کے حصول کے لیے سعودی قونصل خانے گئے تھے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جمال خشوگی کے قتل کا حکم دینے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
البتہ، ریاض نے آخر کار یہ تسلیم کر لیا تھا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں کے ضمن میں کیے گئے ایک آپریشن کے دوران غلطی سے جمال خشوگی کی ہلاکت ہو گئی تھی۔
بعدازاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی جولائی 2019 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ خشوگی کی ہلاکت کی اخلاقی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔
خشوگی کی ہلاکت میں ملوث پانچ اہلکاروں کو ابتداً سزائے موت سنائی گئی تھی۔ تاہم خشوگی کے اہلِ خانہ کی جانب سے معافی کے بعد اُن کی سزائیں 20 سال قید میں تبدیل کر دی گئی تھیں۔
جمال خشوگی کی ہلاکت کے بعد اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کی تفتیش کار ڈاکٹر انیاس کلمارڈ نے سعودی حکومت پر منظم منصوبہ بندی کے تحت جمال خشوگی کو قتل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی جامع تحقیقات پر زور دیا تھا۔
اس رپورٹ کا ایک حصہ 2018 کے آخر میں امریکی کانگریس میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے قانون سازوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مکمل رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ رد کر دیا تھا۔
ناقدین کے بقول ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کا مقصد سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے معاہدے کو بچانا اور ایران کے ساتھ امریکی کشیدگی کے تناظر میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر رکھنا تھا۔