امریکہ کی سپریم کورٹ نے جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ وُہ صحت عامّہ کی نگہداشت سے متعلّق براک اوباما کے دور میں پاس ہونے والے قانون کے آئین کی مطابقت میں ہونے یا نہ ہونے کے بارے فیصلہ دے گی، اس پر نیو یارک ٹائمز ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ اگلے سال صدارتی انتخابات کی مہم کے عین درمیان آئے گا۔ اور عدالت پر سیاست کا رنگ کا بُہت زیادہ غالب ہوگا۔ اور اخبار نے عدالت کو مشورہ دیا ہے کہ ا ُسے عوام کے مفاد میں اور اپنے اعتبار کے مفاد میں کسی جذباتی قدم سے احتراز کرنا چاہئے۔اگر عدالت نے اپنی ہی سابقہ مثالوں پر عمل کیا، جیسا کہ اسے کرنا چاہئے۔ تو یہ کیس اُلجھاؤ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اخبار کی نظر میں یہ اصلاحی قانون اور اس کی یہ شرط واضح طور پر آئین کے عین مطابق ہے کہ بیشتر افراد کے لئے لازمی ہے کہ وہ صحت کا بیمہ کرائیں یا پھر ہرجانہ بھریں۔
عدالت تک یہ معاملہ یوں پہنچا کہ ایک ذیلی عدالت کے اُس فیصلے کے خلاف اپیلیں ہوئیں، جس میں فرد کے بیمہ خریدنے کے اختیار کو تو کالعدم قرار دیا گیا ، لیکن قانون کے باقی اجزا کو جوں کا تو ں رہنے دیا گیا ۔
قانون کے مخالفین کا موقّف ہے کہ کانگریس نے یہ اصلاحی قدم اٹھا کر اپنے اختیارات سے تجاوُز کیا ہے۔ لیکن کانگریس کو تجارت کی دفع کے تحت قومی صحت کی نگہداشت کی مارکیٹ پر ضابطے نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اپیل کی دو عدالتوں کے ری پبلکنوں کے مقرر کردہ ججوں نے بیمے کے اس اختیار کو آئین کے عین مطابق قرار دیا ہے۔ اور اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سپریم کورٹ کےکئی سابقہ فیصلوں میں ایسے وفاقی قوانین کو درست قرار دیا گیا ہے جو شخصی آزادی میں اس سے زیادہ خلل انداز تھے ، یا جو اُن سرگرمیوں سے متعلّق تھے جن کا ریاستوں کے باہمی کاروبار سے واضح تعلّق نہیں تھا ۔
اخبار کہتا ہے کہ ان تمام امُور کو حل کرنے کا بہترین ذریعہ سیاسی نظام ہے عدالتیں نہیں۔ سُپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ عدلیہ کے تحمُّل کا مظاہرہ کرے اور صحت عامّہ کی نگہداشت کے اصلاحی اقدام کو آئین کے مطابق قرار دے۔
شکاگو ٹریبیون ایک ادارئے میں کہتاہے کہ وال سٹریٹ قبضہ تحریک کے چند ہی ہفتوں بعد
صدر اوباما نے اس تحریک کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں کو مایوسی نے گھیر رکھاہے اور یہ احتجاجی مظاہرین اُس وسیع تر عوامی بے زاری کی نمائندگی کر رہے ہیں، جو ہمارے مالیاتی نظام کی کارکردگی کے بارے میں پھیلی ہوئی ہے۔بلکہ انہوں نے واضح رجائیت کے انداز میں یہ پیش گوئی کی کہ اس کا اظہار 2012 اور اس کے بعد تک جاری رہے گا۔
یہ بات انہوں نے اکتوبر کے وسط میں کہی تھی ۔ لیکن اخبار کہتاہے کہ وہ شائید اس سے کم حمائیت کا مظاہرہ کرتے اگر انہیں اس کا اندازہ ہوتا کہ اوک لینڈ کیلی فورنیا میں کیا ہونے وا لا ہے، جہاں مظاہرین نے دکانوں کے شیشے توڑے۔ اندرون شہر آتش زنی کی وارداتیں کیں اور ملک کی پانچویں بڑی بندرگاہ کو بند کر ڈالا۔شکاگو ۔ نیو یارک اور دوسری جگہوں میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اخبار کہتا ہے کہ جو سیاست دان احتجاجی تحریک کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں۔ وہ بہت ہی انتہا پسند اور نامعقول عناصر کے اسیر ہو جاتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ری پبلکنو ں کے لئے بھی یہ خود بین ہونے کا مقام نہیں ہے۔ کیونکہ ٹی پارٹی کی شکل میں ان کے بھی اپنےسرگرم کارکن ہیں۔ قبضہ تحریک اور ٹی پارٹی کٹر حامیوں کے نزدیک تشدد کے مکرو ہ واقعات افسوسناک تو ہیں لیکن غیر اہم ہیں لیکن عام امریکی ان سے بد دل ہو سکتے ہیں۔ جس کا نزلہ ان سے قربت رکھنے والے سیاست دان پر گر سکتا ہے۔
چنانچہ اخبار نے صدر اوباما کو مشورہ دیا ہے کہ قبضہ تحریک سے وابستہ لوگوں کی طرح عوام کے اندر جو بے زاری پھیلی ہوئی ہے۔ اُس کو انہیں صحیح سمت موڑنا چاہئے۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو ۔ کہ وہ گھر بیٹھ جائیں ۔ یا پھر کسی تیسری پارٹی کے امیدوار کی تلاش کریں۔ جہاں تک ری پبلکنز کا تعلّق ہے تو اخبار کا انہیں مشورہ ہے ۔ کہ ان کے لئے ٹی پارٹی کو گلے لگانا اُتنا ہی خطر ناک ہے جتنا کہ اُن سے کنّی کترانا۔ دونوں صورتوں میں انہیں یہ وسوسہ دامن گیر رہے گا کہ کیا معلوم ان کے اتحادی کیا کر گذریں۔