امریکہ نے طالبان حکمرانوں پر دباو ڈالنےکےلیے کہ وہ مذہب کے نام پر ملک کی خواتین کو عوامی زندگی سے باہر نہ کریں۔ مسلم اکثریتی ممالک سے بات چیت کا آغاز کیا ہے ۔
افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے امریکی خصوصی ایلچی رینا امیری نے بدھ کو واشنگٹن میں ایک سیمنار سے خطاب میں کہا کہ وہ اس معاملے پر تمام بین الااقوامی اسٹیک ہولڈرز کے مشترکہ سفارتی اقدام کی قیادت کررہی ہیں۔
سفیر نے سنٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک سمینار میں میں کہا کہ انھوں نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب اور قطر کا دورہ کیا تھا اور دیگر اکثریتی مسلمان ممالک کے سفر کا بھی ارادہ رکھتی ہیں، تاکہ انھیں خواتین کی آزادی سلب کرنے والے طالبان کے رجعت پسندانہ طرز عمل سے آگاہ کرسکیں۔
انھوں نے توجہ مبذول کرائی ہے کہ بہت سے علاقائی اور اسلامی ممالک افغانستان میں سفارتی موجودگی برقراررکھے ہوئے ہیں اور طالبان کے ساتھ رابطوں کے دوران حکومت میں تمام سیاسی اور نسلی گروہوں کی شمولیت کی وکالت ضرورکرتے ہیں، لیکن خواتین کے بارے میں کم ہی کچھ کہتے ہیں۔امیری نے کہا کہ جب وہ طالبان سے بات کرتے ہیں تو میں ان سے کہتی ہوں کہ" وہ اپنے ساتھ وفد میں خواتین کو بھی شامل کرلیا کریں تاکہ انھیں پتہ چلے کہ خواتین اپنے ممالک میں نمایاں اور مضبوط کردار نبھارہی ہیں۔
اسلام پسند گروپ نے اگست میں افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا اور صرف مردوں پر مشتمل عبوری حکومت قائم کرلی تھی جس میں زیادہ تر پشتون شامل ہیں جو کہ خود طالبان کی طرح ملک کا ایک سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔
SEE ALSO: عالمی بینک نے منجمد افغان ٹرسٹ فنڈ میں سے ایک ارب ڈالر کے استعمال کی اجازت دے دیہیومن رائٹس واچ کی ہیدر بار نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ لڑکیوں کےسیکنڈری اسکولوں کی اکثریت بند ہے۔ صنفی بنیاد پر طلبا کو الگ الگ رکھنے کے نئے قانون کے ساتھ یونیورسٹیاں حال ہی میں دوبارہ کھلی ہیں لیکن بہت سی خواتین یونیورسٹی واپس جانے سے قاصر ہیں، کیونکہ جو کچھ انھوں نے پڑھا ہے ان شعبوں کو ہی محدود کر دیا گیا ہے کیونکہ طالبان نے خواتین کی بہت سی ملازمتوں پر پابندی عائد کردی ہے"۔
طالبان نے اپنی حکومت پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت قانونی طور پر تسلیم کیے جانے کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں ۔لیکن وہ خواتین پر پابندیوں کا بھرپوردفاع کرتے ہیں اور اسے اسلامی اصولوں کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔بنیاد پرست گروپ نے اس ماہ افغانستان میں لڑکیوں کے تمام اسکول کھولنے کا وعدہ کیا ہے۔
امیری نے کہا کہ انھوں نے حال ہی میں قطر میں طالبان مندوبین سے بھی بات چیت کی تھی، جنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کابل مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتاہے۔انھوں نے کہا کہ" میری خواہش ہے کہ صرف مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز نہ کریں بلکہ ملک کے اندردیگر افغانوں کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں، مختلف نسلی گروپوں کواپنے ساتھ شامل کرکے اعتماد پیدا کریں جو کہ ایک جامع اور شفاف عمل ہے جس سے آبادی میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے طالبان کو متنبہ بھی کیا کہ ان کے اقتدار میں آنے سے افغان تنازع صرف وقتی طور پر رکا ہے اور دیگر نسلی گروپوں کی اس میں شمولیت کے بغیر یہ ختم نہیں ہوگا۔
ناقدین کو شک ہے کہ اسلام کے بارے میں طالبان کے انتہائی محدود نظریے کو چیلنج کرنے کے لیے ان سے بات چیت کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوسکیں گے۔ ایک سابق امریکی سفارتکار این رچرڈ نے ایک سیمنار میں کہا کہ "مجھے نہیں لگتا کہ باہرسے لوگ طالبان پر اثر انداز ہوسکیں گے۔ ہاں، اقوام متحدہ کے حکام، خصوصی ایلچی اور ممکنہ طور پر حکومتیں اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کی کوششوں کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کا مسلسل خیال رکھا جائے اور ہمیں ان لوگوں سے زیادہ سے زیادہ معلومات لینی ہوگی جو افغانستان کےاند ر ہیں"۔
افغانستان کے قریبی پڑوسیوں بشمول پاکستان اور ایران، نیز علاقائی ممالک ، سب ہی نے طالبان کو خبردار کیا ہےکہ جب تک وہ بین الااقوامی توقعات پر پورا نہیں اترتے، ان کےملک کی معاشی اور انسانی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتارہے گا۔
گزشتہ ماہ چھ ملکی خلیج تعاون کونسل کے سفارتکاروں نے دوحہ میں افغانستان کے ڈی فیکٹو حکام سے ملاقات کی تھی اور ایک ایک ایسے قومی مفاہمتی منصوبے کی ضروررت پر زور دیا تھا جو خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے سمیت تمام بنیادی آزادیوں اور حقوق کا احترام کرتا ہو